بلوچستان ہائی کورٹ میں ہوشاب واقعے کے حوالے سے سینئر وکیل و سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست پر چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشمل بینچ نے سماعت کی۔عدالت نے غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنرکیچ، اسسٹنٹ کمشنر تربت اور نائب تحصیلدار ہوشاب کو معطل کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے ہوشاب واقعے میں جاں بحق بچوں کو شہید کا درجہ دینے کا بھی حکم دیا۔عدالت نے حکومت بلوچستان کو یہ بھی حکم دیا کہ واقعے میں زخمی بچی کو سرکاری خرچ پر طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائے، اس کے علاوہ ہوشاب واقعے کی ایف آئی آر کرائم برانچ کے تھانے میں درج کی جائے جبکہ واقعے کی لیویز کی جانب سے درج ایف آئی آر خارج کی جائے۔
عدالت نے واقعے کی آزاد، شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کیلئے تین اعلیٰ افسران پر مشتمل ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیتے ہوئے درخواست نمٹادی۔ واضح رہے کہ ہوشاب دھماکے میں جاں بحق بچوں کے لواحقین نے میتوں کے ہمراہ کوئٹہ میں دھرنا دے رکھا ہے اور ان کا یہی مطالبہ ہے کہ واقعے کی شفاف طریقے سے تحقیقات کی جائے اور اصل ذمہ داران کو قرارواقعی سزا دی جائے جبکہ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتیں بھی یہی مطالبہ کررہی ہیں ۔
دوسری جانب وزیرداخلہ نے بھی ہر حوالے سے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔بہرحال اس طرح کے واقعات کسی طرح بھی ملکی حالات کے لیے بہتر نہیں ہیں اگر واقعہ حادثاتی طور پر بھی پیش آیا ہے تو اس میں تمام اداروں کو تعاون کرنا چاہئے تاکہ اصل محرکات سامنے آسکیں کہ کس طرح سے یہ واقعہ پیش آیا۔ اس سے قبل بھی مکران کے مختلف علاقوں میں کچھ واقعات رپورٹس ہوئے تھے اور اس دوران دیکھاگیا کہ سیکیورٹی فورسز کے حکام نے بھرپور تعاون کرتے ہوئے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جس سے عوامی سطح پر اعتماد کی فضابحال ہوئی ۔ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان خلیج حالات کو مزید گھمبیر بنادیتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ عدلیہ کی جانب سے جوحکم دیاگیا ہے یقینا قابل ستائش ہے اس سے اداروں سے عوام کی امیدیں وابستہ ہوجائینگی کہ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ادارے انصاف کے ساتھ فیصلے کرینگے۔ بلوچستان میں پہلے سے ہی مسائل بہت زیادہ ہیں نیز محرومیوں کواس قدر بڑھادیا گیا کہ حالات نے الگ رخ ہی اختیارکیا۔ اس طرح کی خبروں کو جتنا بھی اوجھل رکھاجائے مگر یہ شہ سرخیوں میں آجاتی ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بروقت واقعات کی شفاف طریقے سے تحقیقات نہیں ہوتیں اور انہیں حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔
اس معاملے پر وزیرداخلہ میرضیاء اللہ لانگو بھی متحرک ہیں لواحقین کے ساتھ مذاکرات بھی ہوئے مگر اس دوران بچوں کے لواحقین مطمئن دکھائی نہیں دیئے ،متاثرہ خاندان کو مطمئن کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انصاف فراہم کیاجائے۔ گزشتہ کئی روز سے غریب لواحقین سراپا احتجاج ہیں ،ان کا مطالبہ ہی صرف انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنے کا ہے اس میں کون سی شرپسندی ہے، بلوچستان میں اس طرح کے واقعات کو ہر وقت سیاسی رنگ دینے کے نام سے جوڑ کر معاملات کو سرد خانے کی نظرکرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کسی بھی طرح کے بلیم گیم سے معاملات کو دبانا نیک شگون نہیں ہے یہی وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ بلوچستان کے عوام کے اندر احساس تحفظ اور یہ امید بحال کی جائے کہ ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے حکومت اور ادارے ان کے ساتھ ہیں ۔امید ہے کہ حکومت معاملے کی شفاف انکوائری کرتے ہوئے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرے گی۔