|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2015

کو ئٹہ:  عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے تحفظات دور کرکے پاک چین اقتصادی راہدری کے اصل اور مختصر ترین روٹ کو بحال کیا جائے اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی کی قرارداد پر عمل درآمد کرایا جائے۔ گوادر کی بندرگاہ پر پہلا حق بلوچستان کا ہے، اقتصادی روٹ گوادر کو بلوچستان کے دار الخلافہ کوئٹہ سے جوڑے بغیر گزارا گیا تو یہ یہاں کے عوام کے حقوق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوگا۔کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پاکستان اور چین کے درمیان گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کے روٹ کی مبیہنہ تبدیلی کے خلاف کل جماعتی کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء میاں افتخار حسین نے مشترکہ اعلامیہ پیش کیا۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہ گیا کہ ہم آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء اور پاکستان اور عظیم پڑوسی دوست ملک چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ہم خصوصیت کے ساتھ پاکستان اور چین کے درمیان مجوز ہ اقتصادی راہداری کی تعمیر کی بھر پور حمایت کرتے ہیں اور اس یقین کا اظہار کرتے ہیں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف دونوں دوست اور برادر ملکوں کے عوام کو فائدہ ہوگا۔ بلکہ پورے خطے کی اقتصادی ترقی و اہمیت ملے گی۔ آل پارٹیز کانفرنس چین کے محترم صدر کے حالیہ دور ہ پاکستان کے مثبت نتائج پر اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اپنے اپنے عوام کی آرزؤں کے مطابق سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مشترکہ قواعد کی بنیاد پر مزید بڑھاوادیں گے ہم ایک ایسے خطے میں رہتے ہیں جہاں ملکوں کے درمیان علاقائی تعاون دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت پسماندہ ہے اس لئے ہم خطے کے ممالک کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون کو مثبت پیش رفت سمجھتے ہیں۔ پاک چین تعلقات کے بارے میں مثبت موقف اختیار کرنے کے بعد آل پارٹیز کانفرنس حکومت پاکستان کی جانب سے پاک چین اقتصادی راہداری کے مختصر ترین اصلی اور معقول راستے میں تبدیلیاں لا کر ایسے اہم منصوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ اقتصادی راہداری کو اصل راستے سے گزارا جائے ۔ یہ راستہ شاہرا قرارم سے خیبر پختونخواء کے جنوبی اضلاع اور فاٹا سے گزر کر بلوچستان کے ژوب ، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ، مستونگ ، سہراب ، خوشاب ، ناگ، بسیمہ ، سے گوادر تک جاتا ہے ۔ دوسرے راستوں کی نسبت یہ راستہ تقریبا پانچ سو 500کلو میٹر کم ہونے کی وجہ سے معقول ہے ۔یہ ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کو ترقی کا موقع فراہم کرتے ہوئے فاٹا ، خیبر پختونخواء ، اور بلوچستان میں اتنہاء پسندی اور دہشتگردی کو شکست دینے کا باعث بنے گا۔ یہ بیرونی خطرات سے محفوظ ترین راستہ ہے سیلابی پانی سے اس کو بھی خطر ہ نہیں ہے اور افغانستان اور وسطی اشیاء سے قریب ہونے کی وجہ سے مستقبل کی علاقائی توسیع کے لئے موزوں ترین ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کوملک کے شمال سے جنوب کی طرف متعدد شاہراہوں کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ کہ مسئلہ بڑی شاہراہوں کی تعمیر کا نہیں ہے بلکہ صنعتی پارکوں ، بجلی اور انرجی کے منصوبوں ، آپٹیک فائبراور ریلوے لائن کی تعمیر بچھائے جانے سے ہیں ۔ اسلئے اقتصادی شاہر اہ کی متذکرہ بالا منصوبوں پر مشتمل اور ریجنل روٹ ، کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کیاجائے اس کے بعد وہ ملک کے اندر جتنی شاہراہیں تعمیر کرنا چاہتی ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال صاحب اسلسلے میں حقائق کی پردہ پوشی کرتے ہوئے صنعتی پارکوں ، انرجی کے منصوبوں، اور ریلوے لائن کے بارے میں کوئی صاف بات بتانے سے انکار ی ہے ۔اور نہ ہی وہ یہ بات واضح کرتے ہیں کہ چھیالیس ارب ڈال کی چینی سرمایہ کاری میں مختلف صوبوں کا حصہ کیا ہوگا۔ کوئٹہ میں آل پارٹیز کے شرکاء واضح کرنا چاہتے ہیں کہ خلیج بلوچ میں واقعہ گوادر کی بندرگاہ پر پہلا حق بلوچستان کا ہے اور جو اقتصادی راہداری گوادر کو بلوچستان کے دارلخلافہ کوئٹہ سے جوڑے بغیر گزرتی ہے وہ بلوچستان کے حقوق کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ اے پی سی حکومت سے پوچھنا چاہتی ہے کہ ترقی کے نام پر کہیں گوادر کو وہاں کے عوام سے چھینے اور انہیں اپنی دھرتی پر اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ تو نہیں بنایا جا رہاہے۔ کیونکہ نومنتخب نمائندوں کو ابھی تک اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے ہمارے خیال میں گوادر کے اصلی مالک وہاں کے عوام ہیں۔ ان کی مرضی اور منشاء کے خلاف کوئی تبدیلی وفاقی جمہوری نظام کے فاصلوں کی کھلی خلاف ورزی ہوگی اور کانفرنس کے شرکاء بلوچستان کے عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ اپنے ساحل اور وسائل پر جائز اختیار رکھنے کی جد وجہد ہمیں ہم ان کی بھر پور حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ بلوچستان کی عوام کی شرکت کے بغیر نام نہاد ترقی بلکہ ایسے ہوگا جیسے شیکسپیئر کے ڈرامے یملٹ کو شہزادہ نمارک کے بغیر کھیلا جائے ۔ کانفرنس کے شرکاء مرکزی حکومت کی غاصبانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کے خلا آواز اٹھانے والوں کو ملک دشمن قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے واضح کرتی ہے کہ ماضی میں بھی چھوٹے صوبوں کے عوام کو ان یونٹ توڑنے ، کالاباغ ڈیم کی تعمیر مخالفت اور صوبائی خود مختیاری مانگنے پر غداری قرار دے دیا گیا لیکن تاریخی تجربے نے ثابت کیا کہ چھوٹے صوبوں کے عوام کو موقف حق پر مبنی تھا اسی لئے اسے کامیابی ملی ۔ کانفرنس کے شرکاء حکومت کو خبر دار کرتے ہیں کہ وہ پاک چین راہداری کے اصلی راستے کو بحال کریں ورنہ متاثرہ علاقوں کے عوام قانونی اور آئینی حقوق حاصل کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہونگے اے پی سی کے شرکاء کوئٹہ اور بلوچستان کے عوام کو راہداری کے راستے میں تبدیلی کے خلاف تاریخی ریلی اور کامیاب شٹر ڈاوؤن پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے انہیں اس تحریک کا ہر اول دستہ قرار دیتے ہیں۔ گوادر کے اختیارات اہل بلوچستان کو تفویض کیے جائیں گوادر کے عوام کو اقلیت میں بدلنے کے درپردہ کوششوں کو خلاف قانون قرار دیا جائے ۔ اور انکے بنیادی حقوق کی تحفظ کیا جائے بلوچستان اسمبلی کے 28فروری 2015کے قرارداد پر مکمل عمل درآمد کیا جائے ۔ واضح رہے کہ اعلامیہ پر اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی ، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ،رہنما ء جمعیت علماء اسلام اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ،نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل یاسین بلوچ ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رضا محمد رضا ،عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میاں افتخار، اے این پی بلوچستان کے صدر اصغر اچکزئی ، مسلم لیگ ق بلوچستان کے صدر جعفر خان مندوخیل ،جمعیت علماء اسلام (نظریاتی )کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالقادر لونی ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ ،بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی)کے مرکزی رہنماء محمدآصف بلوچ ، جمعیت علمائے اسلام (س) کے مفتی عبدالواحد بازئی ، بلوچستان بارایسوسی ایشن کے صدربلال انورکاسی ،بلوچستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین منیر احمد خان کاکڑ اور دیگرکے دستخط بھی تھے۔ جبکہ اعلامیہ کی شرکاء سے بھی منظوری لی گئی۔