پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے راولپنڈی سے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا۔اپوزیشن اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن) کی جانب سے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہرگزشتہ روز مہنگائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔مظاہرے میں متعدد افرادنے شرکت کی جنہوں نے مہنگائی اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔اس دوران مظاہرین نے حکومت کے خلاف لیاقت باغ سے کمیٹی چوک تک ریلی بھی نکالی۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے ملک گیر احتجاج کیلئے ریلیوں، جلسوں اور مظاہروں کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم نے جعلی حکمرانوں کو گھر بھیجنے کیلئے فیصلہ کن تحریک شروع کردی، پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں بڑھاکر مہنگائی کا ایٹم بم چلایا گیا، ریاست مدینہ کا مذہبی کارڈ تنقید سے بچنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید نے خبردار کیا ہے کہ اپوزیشن ضرور احتجاج کرے لیکن آئین اور قانون کسی کو ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشیدکا کہنا تھا کہ الیکشن سے پہلے دنگا فساد کرنے والے اپنے لیے گڑھا کھودیں گے، مجھے خوشی ہے کہ پی ڈی ایم نے احتجاج کے لیے میرے شہر کا انتخاب کیا،عمران خان خود ہر ہفتے مہنگائی کے مسئلے کو دیکھ رہے ہیں۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ امریکی ناظم الامور کو بھی پتا ہے کہ ن اور ش دو لیگ ہیں، الیکشن سے پہلے تیسری ن لیگ وجود میں آجائیگی، شہبازشریف کی اگرکسی سے ملاقات ہوئی ہے تو اچھی بات ہے۔پی ڈی ایم کے احتجاجی تحریک کا اس وقت محورومرکز موجودہ مہنگائی ہے یقینا اس سے عوامی ہمدردی پی ڈی ایم کو ملے گی کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہے جس میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ امکان بھی ظاہر کیاجارہا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران مزید مہنگائی بڑھے گی اور اس کی وجہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ ہونا ہے کہ 15روپے کے قریب پیٹرول مہنگاہوگا اور ڈیزل، مٹی کے تیل کی قیمتوں میںاضافہ کیاجائے گا جس سے براہ راست عوام متاثر ہونگے مگر اس احتجاجی تحریک سے حکومت کی چھٹی تو نہیں کی جاسکتی ایک قسم کا دباؤ مہنگائی کے حوالے سے ضرور پڑسکتا ہے۔ شنید یہی ہے کہ اپوزیشن ایک طویل احتجاج کرنے جارہی ہے۔
جسے ملک بھر میں پھیلایاجائے گا مگر اس وقت اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے مکمل الگ ہے اور اس نے اپنا شیڈول جاری کرنے کافیصلہ کیا ہے البتہ ایک اشارہ پیپلزپارٹی کی جانب سے دوبارہ دیا گیا ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی پر غورکیاجائے جس کا اظہار پیپلزپارٹی کی سیکریٹری اطلاعات شازیہ مری نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کیا۔ انہوں نے کہاکہ پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے اور اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی اپنائے تو ہم ساتھ چلیں گے۔ اس سے قبل بھی پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اِن ہاؤس تبدیلی کے متعلق کہتے رہے ہیں مگر جب یوسف رضا گیلانی کو حکومتی ارکان کی جانب سے ووٹ دیئے گئے اور چیئرمین سینیٹ سمیت دیگر معاملات پر پیپلزپارٹی اور پی ڈیم ایم کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے اور ایک لمبی خاموشی چھاگئی ،جس تیزی کے ساتھ پی ڈی ایم اوپر آئی تھی ،دھڑام سے زمین پر آگری چونکہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ایجنڈا مکمل طور پر واضح نہیں تھا اورسیاسی حکمت عملی پر بھی اعتماد کا فقدان تھا یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم مضبوط پوزیشن پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے میں ناکام رہی ۔
اب بھی صورتحال ماضی کی نسبت قدرے بہتر نہیں کہ کہاجائے اپوزیشن دوبارہ ایک پیج پر آئے گی کیونکہ اپوزیشن اور حکمرانی کی تاریخ بالکل ہی ہمارے یہاں الگ رہی ہے کسی نہ کسی طریقے سے سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے درمیان میں ہی راستے جداکئے ہیں مگر حکومت کے پاس بھی کوئی واضح معاشی پالیسی نہیں ہے کہ جس سے گورننس کی بہتری اور معاشی بحران پر قابو پانے کے حوالے سے توقع کی جاسکے۔ دیگر بڑے مسائل بھی اس وقت حکومت کے سامنے کھڑے ہیں جو آگے چل کر چیلنج کا سبب بن سکتے ہیں۔ جہاں تک شیخ رشید کی ن لیگ میں دھڑے بندیوںسے متعلق پیش گوئی ہے اس کا تذکرہ پہلے بھی کیاجاچکا ہے مگر ن لیگ کے اندر دھڑے بندی نہیں ہوئی گوکہ پالیسی پر ن لیگ کی قیادت کے درمیان اختلافات رائے موجود ہے جو اب محسوس ہونے لگا ہے کہ شہباز شریف اور مریم نواز ایک نکتے پر آرہے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ کی مضبوطی اور پی ڈی ایم کی تحریک کیا رنگ لائے گی اور پیپلزپارٹی کی جانب سے پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک محض ایک بیان ہی ثابت ہوگا یا آگے چل کر پیپلزپارٹی اس پر کام کرے گی اور ایک بار پھر اپوزیشن کے درمیان اتحاد کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کرے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر بحرانات کے سبب اور اپوزیشن کے احتجاج سے حکومت کے مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔