کوئٹہ: بلوچستان عوامی پارٹی،جمعیت علماء اسلام ،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماوں نے کہا ہے کہ خواتین سمیت ارکان اسمبلی کو لاپتہ کرکے حبس بے جا میں رکھنا بدترین عمل ہے وزیراعلیٰ جام کمال خان 20اکتوبر کو 33ارکان کی تحریک عدم اعتما د کی حمایت کے بعد اعتماد کھوچکے ہیں بطور جام آف لسبیلہ انہیں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیدینا چاہئے عہدے کسی کی میراث نہیں کل کے دشمن آج کے دوست اورآج کے دوست کل کے دشمن بن سکتے ہیںوزیراعلیٰ کے خلاف ارکان کی تعداد 40ہوگئی ہے انہیں اخلاقی طور پر منصب پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔یہ بات جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل و سینیٹرمولانا عبدالغفور حیدری،اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو ،پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما و چیف آف جھالاوان رکن صوبائی اسمبلی نواب ثناء اللہ خان زہری،بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میر ظہور بلیدی،پیپلزپارٹی کے رہنما جنرل(ر) عبدالقادربلوچ نے ہفتہ کی رات اسپیکر صوبائی اسمبلی کی رہائش گاہ پر مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر بلوچستان اسمبلی کے 39ارکان بھی موجود تھے۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولاناعبدالغفورحیدری نے کہا کہ جمہوریت میں آئین کی پاسداری کی جاتی ہے جب 33ارکان نے کھڑے ہوکر وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا تو جام کمال خان حق حکمرانی کھو بیٹھے تھے شاید وہ غلط فہمی میں ہیں کہ ممبران کو ہائی جیک یا دباو ڈال کروہ کامیاب ہوجائیں گے لیکن ارکان اسمبلی نے ضمیرکا فیصلہ کیا اوردباو میں نہیں آئے ۔انہوں نے کہا کہ جب جام کمال خان کو معلوم ہوگیا کہ اقتدارمیں رہنے کیلئے پیسے کام نہیں دے رہے تو دباو ڈالنا شروع کردیا بلوچستان میں ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خواتین اور ارکان اسمبلی کو لاپتہ کیا گیا ہوبلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی نے ثابت قدمی سے ثابت کردیا کہ وہ جام کمال خان کے خلاف ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب حکومتی ارکان کے ساتھ یہ سب کچھ ہورہا ہے تو تین سال کے دوران اپوزیشن کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا ہوگاہمارے اقلیتی رکن تک کو تنگ کیاگیاپارلیمنٹ پربلڈوزر چلاکرتقدس پامال کیا گیاارکان زخمی ہوئے ہمیشہ حکومت اپوزیشن کوساتھ لیکر چلتی ہے لیکن جام صاحب نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جام کمال خان سے ذاتی اختلافات نہیں انکی طرز حکمرانی سے اختلاف ہے ۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم وزیراعلیٰ کو ہٹائیں گے آنے والے مرحلے مشاورت سے طے کریں گے۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بطور اسپیکر میرا فرض تھا کہ میں ارکان کولاپتہ کرنے کے خلاف آواز بلند کروں تاریخ میں کبھی ارکان اغواء نہیں ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری جہاز میں ارکان کو اسلام آبادبھیجا گیا خوشی کی بات ہے کہ وہ واپس آگئے ہیںجام کمال خان نے اس طرح کے حالات بنائے ہیں کہ آج ارکان ایک گھرمیں محصور ہیں۔نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ 20اکتوبر کو اجلاس میں شرکت نہیں کرسکا تھا آج بھی لاڑکانہ سے کوئٹہ آیا ہوں انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ سے پارٹی ڈسپلن کے خلاف پابند ہے پارٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم تحریک عدم اعتماد میں وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف ووٹ دیں ۔انہوںنے کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ ہم پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کرفیصلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسوقت 40لوگ موجود ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جب میرے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی تو میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں پہلے دن عزت سے آیا تھا اورعزت سے جاوں گا وزارت اعلیٰ میری ذاتی میراث نہیںجس کیلئے ہم لڑتے میںبطور چیف آف جھالاوان کے جام آف لسبیلہ جام کمال خان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ باعزت طریقے سے استعفیٰ دیکر چلے جائیںاور اسمبلی جسے چاہے نیا لیڈرآف ہاوس منتخب کرے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں جس کے پاس اکثریت ہے فیصلہ وہی کرتے ہیںوزارت اعلیٰ کیلئے مزاحمت کرنا جام کمال خان کے شایان شان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے پرسوں ویسے ہی چلے جانا ہے تو بہتر ہے کہ وہ عزت سے عہدہ چھوڑیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز مجھے جام کمال خان صاحب کا فون بھی آیا تھا انہوں نے کہا تھا کہ وہ میرے پاس آئیں گے اگر وہ میرے پاس آتے ہیں تو میں انہیں یہی مشورہ دوں گا کہ وہ مستعفی ہوجائیں۔انہوں نے کہا کہ سیاست میںکل کے دشمن آج کے دوست بن جاتے ہیں سردار یارمحمد رند بھی کوئٹہ میں موجود نہیں جام کمال خان کے پاس اکثریت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری اورآئی جی پولیس تحریک عدم اعتماد پرفیصلہ ہونے تک کوئی بھی حکم نہ مانیں اور نہ ہی ٹرانسفر اورپوسٹنگ کی جائے اگر کوئی ایسی حرکت کی گئی تو اس سے صوبے میں خون خرابہ ہوسکتا ہے جسے آئی جی پولیس یا چیف سیکرٹری نہیں روک سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب میرے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تھی تو ایک آرڈر بھی جاری نہیں کیا انتظامیہ اسمبلی کے استحقاق کو مدنظررکھتے ہوئے سیاسی صورتحال بہتر ہونے تک کسی بھی قسم کے اقدامات نہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اسوقت صوبے کی تمام جماعتیں ایک طرف ہیں کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ وہ اپنی مرضی کے اقدامات کریگاہم برسراقتدارآکر ان تمام فیصلوں پر کمیشن بنائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ خواتین سمیت ارکان اسمبلی کو لاپتہ کرنے پر خاموش نہیں رہیں گے ۔ایک سوال کے جواب میں نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کو ہٹاکر کسی ایسے شخص کو وزیراعلیٰ بنائیں گے جو گزشتہ تین سال کے زخموں پرمرہم رکھے اورعوام کی دل جوئی کرسکے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے قائم مقام صدر میر ظہور بلیدی نے کہا کہ نواب ثناء اللہ زہری کے آنے سے ہماری اخلاقی اورعددی پوزیشن بہتر ہوگی اسوقت بلوچستان عوامی پارٹی ،پی ٹی آئی،بی این پی(عوامی)،پیپلز پارٹی ،بی این پی ،جمعیت علماء اسلام ،پی این پی کے ارکان کو ملاکر ہماری تعداد40ہے جو مزید بھی بڑھے گی وزیراعلیٰ کو چاہئے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ کر مستعفی ہوجائیں اوراقتدار کو خیرآباد کہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے پیغام دیا ہے کہ ہم بطور اپوزیشن پارٹی وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کرتے ہیںجام بدقسمت ہیں کہ انہیں اتنی اکثریت ملی پھربھی انہوں نے اپنی پارٹی کا بیڑہ پار کردیااور اپنی جماعت کو بے وقار کیا ۔انہوں نے کہا کہ پانچ سالہ حکومت کے تیسرے سال میں33ارکان نے جام کمال خان پر عدم اعتماد کا اظہارکردیا ہے اب بات ختم ہوگئی ہے ہماری تعداد45سے 50تک بھی جاسکتی ہے جام کما ل خان پرلازم ہے کہ وہ عزت بچاتے ہوئے استعفیٰ دیدیں۔