میرعبدالقدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی میں بلا مقابلہ نئے قائد ایوان منتخب ہو گئے۔ڈپٹی اسپیکرسرداربابر موسیٰ خیل کی زیرصدارت بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے۔عبدالقدوس بزنجو کو39 ووٹ ملے۔بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماء جام کمال نے اپنی ہی جماعت کے باغی اراکین کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری سے ایک روز قبل ہی وزارت اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد بی اے پی نے نئے وزیراعلیٰ کے لیے عبدالقدوس بزنجو کو نامزد کیا تھا۔سال2018 کے عام انتخابات میں عبدالقدوس بزنجو آواران سے بلوچستان عوامی پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ انہیں اسپیکربلوچستان اسمبلی کے عہدے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
عبدالقدوس بزنجونے کہا کہ بلوچستان کی تمام پارٹیوں کے اعتماد پر مشکور ہوں، اب منانے کیلئے کوئی نہیں رہ گیا، حلف لینے کے بعد باتیں نہیں عملی کام نظر آئے گا۔اس سے قبل بھی 2018ء کے دوران نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے تھے اور اس دوران بھی ن لیگ بلوچستان اندرون خانہ اختلافات کا شکار ہوگئی تھی اور اپنے وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کااظہار کیا تھا ۔گلے شکوے ماضی میں بھی وہی تھے جو اس بار پیش کئے گئے ہیں بہرحال میرعبدالقدوس بزنجو کی اس کامیابی کے بعد انہیں بلوچستان میںسیاسی گیم چینجر کے طور پر دیکھا جارہا ہے چونکہ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران بھی انہوں نے فرنٹ لائن کاکردار ادا کیا تھا اور ان کے ساتھ باپ کے موجودہ ساتھی پیش پیش تھے۔
یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اول روز سے ہی میرعبدالقدوس بزنجو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے نا خوش تھے اور ان کی نامزدگی کے دوران بھی باپ کے ارکان سمیت پی ٹی آئی بھی اپنی قیادت سے نالاں ہوگئی تھی مگر کسی طرح سے میرعبدالقدوس بزنجو سمیت باپ ارکان اور پی ٹی آئی کے سردار یارمحمد رند کو منالیاگیامگر جام کمال خان اور ان کے مخالفین کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں رہے ،وقتاََفوقتاََ میرعبدالقدوس بزنجو اپنی ناراضگی کااظہار کرتے رہے مگر پارٹی قیادت کی مداخلت پر انہوں نے خاموشی اختیار کررکھی تھی مگر گزشتہ چند ماہ کے دوران میرعبدالقدوس بزنجو اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے تھے خاص کر بجٹ کے روز اسمبلی میں پیش آنے والے واقعے پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے پورے عمل کاذمہ دار سابق اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو کو ٹہرایا تھااور کہاکہ اسپیکر نے اپنا کردار بہتر طریقے سے ادا نہیں کیا۔
جبکہ جام کمال خان نے متعدد بار یہ شکوہ بھی کیا کہ اسپیکر میرعبدالقدوس بزنجو حکومتی بنچ سے زیادہ اپوزیشن کو وقت دیتے ہیں جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اندرون خانہ یہ سرد جنگ چلتی آرہی تھی مگر اس میں شدت اس وقت آئی جب سردار محمد صالح بھوتانی سے جام کمال خان نے محکمہ بلدیات کا قلمدان واپس لے لیا، پھر باپ کے اراکین ایک ایک کرکے جام کمال خان کے خلاف کھل کر سامنے آنے لگے۔ جب اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جس پر تیکنیکی وجوہات لگاکر گورنر نے منظور نہیںکیا تب باپ کے چودہ اراکین نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرکے اسمبلی میں جمع کرائی جس سے واضح ہوگیا کہ جام کمال خان کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے ۔چونکہ اپوزیشن بھی پہلے سے جام کمال خان کے خلاف صف بندی کرچکی تھی کہ جام کمال خان کے خلاف کسی طرح کی بھی موومنٹ آئے گی اس کی مکمل حمایت کرینگے۔ بہرحال اب میرعبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں امید اور توقع یہی ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران حکومتی اوراپوزیشن ارکان جو شکوہ اپنے حلقوں کو نظرانداز کرنے پر کرتے آئے ہیں ان کاازالہ منتخب وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو کرینگے اور ساتھ ہی بلوچستان کے دیگرترقیاتی اسکیمات اور مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔