ملک میں جب بھی حالات سنگین ہوتے ہیں تو اس دوران میڈیا خود اپنے تئیں ایڈیٹوریل پالیسی کے حوالے سے ردوبدل کرتی ہے اور اس میں خاص کوشش یہ کی جاتی ہے کہ انتشار اور افراتفری کو ہوا نہ دی جائے بلکہ مثبت انداز میں جو کچھ ہورہا ہے اسے سامنے لایا جائے تاکہ کسی طر ح بھی عوام ذہنی کوفت میں مبتلا نہ ہوجائیں یا پھر فریقین کے درمیان کسی طرح کی انتشاری کیفیت پیدا نہ ہوجائے ۔ گوکہ میڈیا پر قدغن ہر دور میں لگایاگیا ہے مگر اس کی وجوہات میں انتشار افراتفری، بلاجواز پروپیگنڈا شامل ہی نہیں رہا ہے بلکہ غیرجانبدارانہ صحافت کا عنصر ہی حکمرانوں پر حاوی رہا ہے جس کی وجہ سے ناخوش رہتے ہوئے مختلف طریقوں اور حربوں کے ذریعے میڈیا کی آواز دبانے کی کوششیں کی گئیں۔
اظہار رائے کی آزادی کو کبھی برداشت کیا ہی نہیں گیا ،جمہوریت کے تمام چمپیئن جماعتوں نے ہر وقت میڈیا کے ساتھ سخت گیر رویہ اپنایا۔جب تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں تو انہی سیاسی جماعتوں کی مرہون منت میڈیا کو تقسیم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور میڈیا کے اندر اپنے من پسند افراد کو اہم عہدوں پر ان شرائط کی بنیاد پر بٹھایاگیا کہ انہیں ہر طرح سے حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگی یقینا سرپرستی کا براہ راست مطلب یہی ہوتا ہے کہ مالی حوالے سے انہیں کسی قسم کی دشواری کاسامنا نہیں کرنا پڑے گا، اشتہارات میں انہیں سرفہرست رکھا جائے گا نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا تو تقسیم ہوگئی مگر حقائق کو مسخ کرنے کے بعد جو نتائج حکمرانوں نے حاصل کرنے کی کوشش کی اس میں بھی انہیں ناکامی کاسامنا کرناپڑا کیونکہ عوام اتنی باشعور ہوچکی ہے کہ انہیں جانبدارانہ وغیر جانبدارانہ رپورٹنگ کا بخوبی اندازہ ہے کہ کون سچ بتارہا ہے اور کون حقائق چھپاتے ہوئے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔
بہرحال اس تمام تر صورتحال کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے پنجاب کے مختلف اضلاع میںاحتجاج چل رہا تھا میڈیا نے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ اس احتجاج کی کوریج کی باوجود اس کے کہ دوران احتجاج عام لوگوں کے املاک کو نقصان پہنچایا گیا ،پولیس اہلکاروں کی شہادت ہوئی ، تمام حالات کو احتیاط کے ساتھ دکھایاگیا تاکہ ماحول میں زیادہ تلخی پیدا نہ ہوجائے اور اس کی تعریف بھی وزراء کی جانب سے کی گئی کہ میڈیا نے حساس حالات کے دوران ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خبریں چلائیں مگر ساتھ ہی جس جماعت نے دھرنا اور احتجاج جاری رکھا ہوا تھا اس کے متعلق یہ بتایاگیا کہ وہ بیرونی ایجنڈے پر کام کررہی ہے ،اس کی فنڈنگ بھارت کررہا ہے ،ان کے سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس دشمن ملک سمیت دیگر ممالک سے چل رہے ہیں ۔ان تمام تر بیانات کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ذرائع کے مطابق حکومتی وفد اور کالعدم تنظیم کی قیادت کے درمیان رات گئے مذاکرات ہوئے، حکومتی وفد میں شاہ محمود قریشی، اسد قیصر اور علی محمد خان شامل تھے جبکہ مذاکرات میں کالعدم تنظیم کے سربراہ سعد رضوی بھی شریک تھے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق پہلے کالعدم تنظیم کے لوگ جی ٹی روڈ پر کئی روز سے جاری دھرنا ختم کریں گے، جس کے جواب میں ٹی ایل پی کے گرفتار کارکنوں کی رہائی قانونی ضابطے پورے کرنے کے بعد عمل میں لائی جائے گی۔اب اس تمام تر صورتحال کے دوران میڈیا اور حکومتی پالیسی کا موازنہ کیاجائے تو کس نے ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیئے اور حالات کو بھانپتے ہوئے کسی پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات نہیں لگائے ۔اب کالعدم تنظیم کی فنڈنگ اور مذاکرات کے حوالے سے بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں، معاہدے کے متعلق اپوزیشن جماعتیں سوالات اٹھارہی ہیں کہ معاہدے کو سامنے لایاجائے مگر یہ پہلی بار نہیں ہوا حکمرانوں کی اپنی غلطیاںہر وقت ان کے گلے میںپڑتی ہیں لیکن میڈیا کو اس ذمہ دار ٹہرایاجاتا رہاہے۔
اس تمام تر صورتحال کو سمجھتے ہوئے ایک بات سمجھنا ضروری ہے کہ حقائق کو مسخ کرنے کی پالیسی وقتی طور پر فائدہ مند تو ہوسکتی ہے مگر مستقبل میں اس کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں اس لئے میڈیا کو اپناکام کرنے دیاجائے، حکمران اپنی پالیسیوں کے ذریعے سیاسی معاملات کو ڈیل کریں۔