ممالک کی ترقی میں کلیدی کردار حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا ہوتا ہے جس میں جمہور کی رائے انتہائی اہمیت رکھتی ہے پارلیمان تک پہنچنے والے نمائندگان ریاست اور عوام کے مفادات کے وسیع ترمفاد میں قانون سازی کرتے ہیں تاکہ ملک اور عوام کا مستقبل تابناک ہوسکے ۔ معاشی، سماجی تبدیلی سے براہ راست عوام الناس فائدہ اٹھاتے ہیں اور پارلیمان ہی واحد مقدس ایوان ہوتا ہے جس میں تمام تر قانون سازی کی جاتی ہے اگر کوئی بھی فرد ملک اور عوام کے مفادات کو ذاتی مفادات کی غرض سے نقصان پہنچاتا ہے تو اسے سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا سیاسی مستقبل مکمل طور پر تاریک ہوکر رہ جاتا ہے۔
قانون کی بالادستی کے لیے عوام پُرامن اور قانون کے دائرے میں رہ کر لٹیرے سیاستدانوں کا محاسبہ کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں بدقسمتی سے ملک بننے کے چند عرصے بعد ایسی شخصیات سیاست میں کُود پڑے جو غیر سیاسی اور صنعتکار تھے ،سازباز کرکے انہوں نے پارلیمان تک رسائی حاصل کی، ووٹ کے تقدس کو پامال کیا ، اداروں کو اپنے تابع کرتے ہوئے پورے نظام کو مفلوج بناکر اپنی شہنشاہیت قائم کردی جو تاہنوز جاری ہے۔ آج ہمارے پارلیمان کی کمزوری کی بڑی وجہ مصنوعی سیاسی لیڈر شپ ہے جن کو عوام کے ووٹ کی ضرورت نہیں ،وہ اپنی طاقت ،اثرونفوذ کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں پر پیسے کی ریل پیل بھی کی جاتی ہے ۔یہ بات سب پر اب واضح ہوچکی ہے ہمارا سیاسی نظام مکمل طور پر کرپٹ ہوچکا ہے اس لیے عوام کسی پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، ہر نئی امید کے ساتھ جب عوام جوش وولولے کے ساتھ انتخابات میں رائے دہی کیلئے جاتے ہیں پھر چند عرصے کی مدت میں ہی وہ مایوس ہوجاتے ہیں کیونکہ یہی شخصیات ٹولہ بن کر ایک سیاسی جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں ڈھٹائی سے شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
جن کا مقصد ہی جائیداد اور دولت کماناہے۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کرپشن کے متعلق با ت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی کے ساتھ ذاتی لڑائی نہیں ہے وہ کرپشن کے خلاف لڑرہے ہیں۔اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مغرب میں پیسہ نہیں چلتا، یہاں سینٹ میں لوگ بکتے ہیں،کرپشن کی وجہ سے ہمارا مورال بری طرح نیچے گرا ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں سب کہتے ہیں کہ آپ کیوں دو خاندانوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ کیوں نہیں ملاتے؟ تو میں ان کو بتاناچاہتا ہوں کہ میری تو ماضی میں ان سے دوستی تھی، ان سے اس لیے ہاتھ نہیں ملاتا کہ ان پر کرپشن کے کیسز ہیں،کرپٹ آدمی سے ہاتھ ملانے کامطلب کرپشن کو تسلیم کرنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ان کی کرپشن کے خلاف جنگ ہے ، پاکستان میں اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں، انگلینڈ میں کرپٹ آدمی اسمبلی نہیں جا سکتا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے اور یورپ کے اقدار میں بہت فرق ہے،سینیٹ میں پیسہ چلتا ہے، لوگ ادھر سے ادھر ہوجاتے ہیں،مغرب میں کوئی پیسے لے کر دوسری جماعت میں نہیں جاتا۔وزیراعظم عمران خان کی ایک با ت سے بھی اختلاف نہیں کیاجاسکتا وہ بالکل درست فرمارہے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج پی ٹی آئی کی حکومت میں وہ شخصیات بھی شامل ہیں جو ان دو خاندانوں کے دور میں حکومت کا حصہ بنے رہے ہیں اور اہم وزارتیں ان کے پاس رہی ہیں ،تو یہ کس طرح سے پاک دامن ہیں ۔کہنے کامقصد یہ ہے کہ جب تک خوداحتسابی کے عمل سے نہیں گزراجائے گا اور حقیقی معنوں میں احتساب کا راستہ نہیں اپنایاجائے گا، نظام اسی طرح چلتا رہے گا اور چند خاندان تو اپنی جگہ چند شخصیات کے گرد ہی پورا سیاسی نظام چلتا رہے گا اور عوام اسی طرح ماضی کوکوستے رہینگے اور ان کے حصے میں بدحالی اور بحرانات کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ حقیقی تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ کرپٹ اور مفادپرست عناصر کو اپنی صفوں سے باہر نکالاجائے تب جاکر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں ملک کے سیاسی وپارلیمانی نظام میں کسی حد تک تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔