کراچی: صوبائی فشریز سیکریٹری نیشنل پارٹی وحدت بلوچستان آدم قادربخش نے کہا ہے کہ بین الصوبائی ٹرالرز کی آزادانہ حرکت سے بلوچستان کا ساحل مچھلیوں کی نسل کشی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے جس نے ماہی گیروں کو دو وقت کی روٹی کا محتاج بنایا ہے۔بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں کی غیر قانونی ٹرالرنگ کو روکنے کے لئے فشریز آرڈیننس کا قانون بھی بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں کا غیر قانونی شکار آزادانہ طورپر جاری ہے۔ محکمہ فشریز مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعہ کو کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا آدم قادر بخش نے کہا کہ بلوچستان کا ساحل 770 کلو میٹر طویل ہے اور یہ پاکستان کا طویل ترین ساحل ہے جو گڈانی ڈسٹرکٹ لسبیلہ سے شروع ہوکر جیونی ایران سمندری حدود تک پھیلا ہوا ہے۔ ملک کا طویل ترین ساحل اپنے بہترین شکار گاہوں اور نایاب مچھلیوں کا مسکن بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساحل کنارے آباد لوگوں کے معاش کا سب سے بڑا ذریعہ شعبہ ماہی گیری سے وابستہ ہے لیکن گزشتہ کئی عشروں سے ماہی گیروں کا یہ ذریعہ معاش تباہی کا شکار ہوگیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اس تباہی کے وجوہات میں غیرقانونی ٹرالرنگ وغیرہ شامل ہیں لیکن مچھلیوں کے شکار کے لئے مہلک جالوں سے لِیس بین الصوبائی ٹرالرز کی آزادانہ حرکت سے بلوچستان کا ساحل مچھلیوں کی نسل کشی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے جس نے ماہی گیروں کو دو وقت کی روٹی کا محتاج بنایا ہے۔ اس وقت بلوچستان کا پورا ساحل غیر قانونی ٹرالرنگ کی زد میں ہے لیکن اورماڑہ، پسنی، گوادر اور جیونی میں غیرقانونی ٹرالرنگ کا اثر بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ غیر قانونی ٹرالرز 12 نائیٹیکل میل کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ ٹرالرز نہ صرف مچھلیوں کا غیر قانونی شکار کرتے ہیں بلکہ مقامی ماہی گیروں کے جال کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ بعض اوقات ان پر حملہ بھی کیا جاتا ہے۔
یعنی ایک طرف وہ ماہی گیروں کو روزگار سے محروم کررہے ہیں تو دوسری طرف ان کو مالی اور جانی نقصان بھی دے رہے ہیں۔آدم قادر بخش نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں کی غیر قانونی ٹرالرنگ کو روکنے کے لئے فشریز آرڈیننس کا قانون بھی بنایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے ساحل پر مچھلیوں کا غیر قانونی شکار آزادانہ طورپر جاری ہے۔ محکمہ فشریز مچھلیوں کے غیر قانونی شکار کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ پہلے سے ہی بلوچستان کے ساحل پر بین الصوبائی ٹرالرز کے عمل دخل نے ماہی گیروں کو پریشان کر رکھا ہے لیکن ابھی چند ماہ قبل چائنیز فشنگ ٹرالرز نے بلوچستان کے ساحل کا رخ بھی کیا تھا۔ غیر ملکی فشنگ ٹرالرز کی جانب سے صوبائی سمندری حدود کی خلاف ورزی کے خلاف نیشنل پارٹی نے یہ مسئلہ سنیٹ میں اٹھا یا تھا اس کے علاوہ صوبہ بھر میں احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ چائنیز فشنگ ٹرالرز کی آمد کے حوالے سے وفاقی حکومت کا متضاد مقف تاحال معمہ بنا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ وفاقی حکومت نے چائینیز فشنگ ٹرالرز کو لائسنس جاری کئے ہیں لیکن سیاسی رد عمل سے بچنے کے لئے اس کو مخفی رکھا جارہا ہے اگر وفاقی حکومت کا ایسا کوئی منصوبہ ہے تو نیشنل پارٹی اس کی مزاحمت کرے گی۔انہوںنے کہا کہ محکمہ فشریز میں مخصوص فورس کے اختیارات کا بھی مسئلہ ہے۔ فشریز کی گشتی ٹیم 12 نائیٹکل میل کی نگرانی کے لئے گشت کرتا ہے لیکن سمندری حدود کی خلاف ورزی کرنے والے فشنگ ٹرالرز کو روکنے کے لئے ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں ہوتا ہے۔
فشریز والے یہی بہانہ کرتے ہیں کہ بزور طاقت ان ٹرالرز کو روکنے کے لئے ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں کوئی مضبوط ماہی گیر پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کا ماہی گیر بدحال ہے۔ یہ معاشرے کا سب سے بڑا محنت کش طبقہ ہے لیکن اس کو لیبر کا درجہ نہیں دیا گیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ناگہانی حادثات کے دوران جانی یا مالی نقصان سے دوچار متاثرہ ماہی گیروں کو حکومتی امداد نہیں مل پاتی ہے۔ حال ہی میں سمندری طوفان گلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اورماڑہ، پسنی، گوادر اور دیگر ساحلی علاقوں میں ماہی گیر کشتیوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مگر اب تک ان کی مالی امداد نہیں کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ماضی میں ماہی گیر کالونی کے قیام کی منظوری دی گئی تھی یہ ماہی گیر کالونیاں گڈانی، سونمیانی، ڈام، کنڈ ملیر، اورماڑہ، پسنی، جیونی اور گوادر میں قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ آدم قادر بخش نے کہا کہ پسنی ھاربر کا منصوبہ بالعموم ضلع گوادر اور بالخصوص پسنی کے ماہیگیروں کے لئے ایک اہم منصوبہ رہا ہے۔ لیکن پسنی ھاربر گذشتہ کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔ شعبہ ماہی گیری کے فروغ کے لئے پسنی ھاربر کی حیثیت مقامی معشیت کے ریڈ کی ہڈی کا حامل تھا لیکن ھاربر کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ اب مٹی سے بھر گیا ہے۔ پسنی ھاربر اس وقت غیر فعال ہے۔ جس کی وجہ سے ماہی گیر اور کاروباری افراد اپنے روزگار اور بزنس سے محروم ہیں۔ پسنی ھاربر کی بحالی کے پروجیکٹ کے لئے ایک ارب 12 کروڑ روپے کی خطیر رقم کی موجودگی کے باوجود اس کی بحالی کے لئے اقدامات شروع نہیں کئے گئے۔
جس کے منفی اثرات شعبہ ماہی گیری پر پڑ رہے ہیں جس سے ہزاروں لوگوں کے بے روزگاری کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ریونیو جنریٹ نہ کرنے کی وجہ سے پسنی ھاربر کے سیکڑوں ملازمیں تنخواہوں سے محروم ہیں اور ان کی تنخواہ جولائی 2021 سے جاری نہیں کئے گئے۔ سربندن اور پشکان جی ٹی کئی عرصہ سے بن رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ بھی نامکمل ہیں۔ جس سے ماہی گیری کا شعبہ متاثر ہورہا ہے۔ گوادر کے مشرقی ساحل پر سی پیک منصوبے کے تحت زیر تعمیر ایکسپریس وے کے منصوبے کی تعمیراتی کام کی وجہ سے ساحل کنارے آباد ماہی گیروں اور دیگر طبقہ کے لوگوں کے گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن اب تک صرف 50 فیصد متاثرین کو معاوضہ ادا کئے گئے ہیں اور 50 فیصد کو معاوضے ادا نہیں کئے گئے ہیں۔ متاثرین گھروں کے اندر رہائش کے لئے خوف کا شکار ہیں۔ انہوںنے کہا کہ نیشنل پارٹی ملک اور بلوچستان کی زمہ دار قومی جماعت ہے۔ بلوچستان کا ساحل ہو یا دیگر وسائل اس کا تحفظ نیشنل پارٹی کے منشور میں شامل ہے۔ بلوچستان میں ماہی گیر کش پالیسیوں کو کسی بھی صورت قبول نہیں کرینگے۔ نیشنل پارٹی ملکی اور غیر ملکی ٹرالرنگ کے خلاف اپنی جدو جہد جاری رکھے گی۔ ماہی گیروں کے بنیادی، سماجی اور حقِ روزگار کو ختم کرنے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے۔ بلوچستان کے ساحل پر غیر قانونی ٹرالرنگ کا خاتمہ کیا جائے، ماہی گیر کالونی کے قیام کا منصوبہ شروع کیا جائے، ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ دیا جائے، سمندری طوفان سے متاثر ہونے والے ماہی گیروں کی مالی امداد فراہم کی جائے اور پسنی فش ھاربر کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا جائے۔