|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2021

چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بینچ نے بلوچستان میں سی پیک کے حوالے سے دائر آئینی درخواست کی سماعت کی ۔درخواست میں درخواست گزار منیر احمد خان کاکڑ نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ حکو مت پاکستان و دیگر کو فریق بنایا ہے ۔معزز عدالت کے روبرو ایڈووکیٹ جنرل نے بلوچستان میں سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے مختلف مسائل ریکارڈ پر رکھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ مسائل پہلے ہی وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھائے جا چکے ہیں، معزز عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار کے وکیل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو سننے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان میں سی پیک کے پروجیکٹس کے حوالے سے وفاقی حکومت نے درپیش مسائل کا تاحال یا تو جواب نہیں دیا ہے یا انہیں اب تک حل نہیں کیاہے ،ان مسائل میں بلوچستان کے لیے 1- ریلوے پروجیکٹ، 2- ژوب- ڈی آئی خان روڈ(N-50) کی اپ گریڈیشن 3،- نوکنڈی ماشکیل پنجگور روڈ کے فیس ٹو کا ایشو ،4- اسپیشل اکنامک زون کو بجلی کی سپلائی کے لیے فنڈز کی فراہمی ،5- سی پیک پروجیکٹ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نوکریاں ،6- پاکستان کے لیے مختص بیس ہزار سکالرشپس میں 50 فیصد بلوچستان کا حصہ،7- جائنٹ ورکنگ گروپس میں شمولیت، 8- گوادر پورٹ کے رستے درآمدات شامل ہیں۔معزز عدالت نے پروجیکٹ ڈائریکٹر سی پیک (ونگ) منسٹری آف پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اینڈ سپیشل انیشیٹیو اسلام آباد گورنمنٹ آف پاکستان اور چیف ایگزیکٹیو آفیسر سی پیک اتھارٹی اسلام آباد کو عدالت میں متعلقہ اپڈیٹ کے ساتھ پیش ہونے کے لیے نوٹسز جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ معزز عدالت نے چیئرمین این ایچ اے کو بھی حکم دیا کہ بلوچستان میں پروجیکٹ سے اچھی طرح آگاہ ایک آفیسر تعینات کرے جو عدالت کی معاونت اور پیرا وائز تبصروں/رائے کے لئے ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوں۔ عدالت نے مذکورہ بالا افسران کو نوٹسز کے ساتھ حکم نامے کی کاپی منسلک کرنے کا حکم دیا اور آئندہ سماعت 25 نومبر 2021 مقرر کی۔

عدالت کی جانب سے سی پیک کے حوالے سے جو احکامات جاری کئے گئے ہیں انتہائی خوش آئند ہیں کیونکہ بدقسمتی سے اب تک سی پیک منصوبے سے بلوچستان کو کیا مل رہا ہے، اب تک بلوچستان کے عوام اور صوبے کو کتنا فائدہ اس سے پہنچا ہے ،منصوبوں کی صورتحال کیا ہے اور مستقبل میں بلوچستان کو اس سے کتنا فائدہ پہنچے گا یا پھر محض کاغذی کارروائی یااعلانات تک تمام معاشی انقلاب کو رکھا گیا ہے۔ چونکہ ماضی کی صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران سے جب بھی سی پیک منصوبے کے متعلق پوچھا گیا تو ان کی جانب سے یہی جواب ملتا آیا ہے کہ انہیں ان منصوبوں کے متعلق علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اہم فیصلوں میں شامل کیاجاتا ہے مگر جب تک کرسی پر براجمان رہتے ہیں تو عوام کو گمراہ کن معلومات فراہم کرتے ہیں کہ سی پیک منصوبے سے بلوچستان میں بہت بڑا معاشی انقلاب آئے گا، بجلی گھر بنائے جارہے ہیں، صنعتی زونز قائم کئے جارہے ہیں، شاہراہوں کا جال بچھایاجارہا ہے، روزگار کے وسیع تر مواقع پیدا کئے جارہے ہیں، اسٹوڈنٹس کے لیے بڑے پیمانے پر اسکالر شپ دیئے جارہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ اب تک بلوچستان میں اس طرح کی کوئی تبدیلی زمینی حقائق کے طور پر دیکھی نہیں گئی ہے۔ اب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جس طرح احکامات دیئے گئے ہیں یقینا سی پیک منصوبے کے بعض معاملات کھل کر سامنے آئینگے اور یہی امید ہے کہ بلوچستان کے عوام کے حق میں بہتر فیصلے آئینگے جوخواب بلوچستان کے عوام سی پیک کے متعلق دیکھ رہے ہیں اس کی تعبیر پائینگے۔