|

وقتِ اشاعت :   November 12 – 2021

xمتحدہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے صلاح مشورے شروع کر دیا ہے۔اپوزیشن کے بعض ارکان کے مطابق سینیٹ میں حکومت اور اس کے اتحادی اقلیت میں ہیں اور ان کی تعداد 42 ہے جبکہ سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو 50 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔اپوزیشن ارکان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہیں سینیٹ میں دلاور خان گروپ کے 6 ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کیخلاف بھی ان ہی کی جماعت کے باغی ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی تاہم جام کمال نے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے ایک روز پہلے ہی عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے اور انہیں حکمران جماعت پی ٹی آئی سمیت مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر کی حمایت حاصل ہے۔ بہرحال یہاں جام کمال خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے ذکر کابنیادی مقصد یہی ہے کہ اندرون خانہ اختلافات کے باعث ہی جام کمال خان کو رخصت کیاگیا، اب معاملات اختیارات ،فنڈز سمیت دیگر کے تھے۔

یہ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں کتنا جول ہے اور اپوزیشن اس سے کس طرح فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ بلوچستان میں حکومتی تبدیلی سے فتح حکومت کی نہیں ہوئی بلکہ اپوزیشن نے اس پر سیاسی برتری حاصل کی۔ اب اسی طرح کی تبدیلی کی گونج ایوان بالامیں سنائی دے رہی ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے گی۔ اپوزیشن اس لیے اتنی پُرامید ہوکر یہ بات کہہ رہی ہے کیونکہ حکومتی بلز کے معاملات پر قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑچکی ہیں اور اس کا اظہار کھل کر ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ ق کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز شہباز شریف کی جانب سے دیئے گئے عشائیہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کاکہناتھاکہ شہباز شریف کا شکریہ جنہوں نے اپوزیشن کو اکٹھا کیا، اپوزیشن کی مشترکہ کاوشوں اور حکومتی اتحادیوں سے اپوزیشن کے رابطوں کی وجہ سے حکومت کو مشترکہ اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھاکہ حکومت پارلیمنٹ میں ہار چکی ہے، حکومت پر ان کے اپنے اتحادی بھی اعتماد نہیں کر رہے ، پارلیمان ہی وہ فورم ہے جس سے عمران خان کی پالیسیوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔خیال رہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کی صبح 11 بجے طلب کیا گیا تھا۔

جس میں انتخابی اصلاحات، کلبھوشن و دیگر اہم معاملات پر قانون سازی متوقع تھی تاہم وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹ کے ذریعے اطلاع دی کہ اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے۔فواد چوہدری نے کہا کہ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے، ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو۔ان کا کہنا تھاکہ اتفاق رائے کے حوالے سے اسپیکر اسد قیصر کو اپوزیشن سے ایک بار پھر رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے تاکہ ایک متفقہ انتخابی اصلاحات کا بل لایا جا سکے۔وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو اس مقصد کیلئے مؤخر کیا جا رہا ہے اور ہمیں امید بھی ہے کہ اپوزیشن ان اہم اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہم پاکستان کے مستقبل کیلئے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے۔البتہ اپوزیشن جماعتوں کا پارلیمان میں حکومت کے خلاف اکٹھاہونے سے اتحادیوں کے اختلافات کے بعد پی ٹی آئی حکومت کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ کیا کوئٹہ سے چلنے والی تبدیلی کی ہوا لاہور پر اثرانداز ہوگی اور اس کے بعد ایوان بالا میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور پارلیمان میں بڑی تبدیلی متوقع ہوسکتی ہے یہ کہناقبل ازوقت ہوگا مگر سیاسی ماحول میں شدت ضرورپیداہوتی جارہی ہے۔ اپوزیشن انتہائی پُرامید دکھائی دے رہی ہے کہ وہ بڑی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوگی ۔بہرحال ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوچکی ہے اس کا خاتمہ کس کی کامیابی اور ناکامی پر ہوگا آئندہ چندروز میں سیاسی منظرنامہ واضح ہوجائے گا ۔