امریکی تھینک ٹینک کا کہنا ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں چین نے عالمی مرکزی اداروں پر اپنا اثر رسوخ بڑھایا ہے، اس پرجانچ پڑتال کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ مرکز برائے عالمی ترقی (سی جی ڈی) نے ایک رپورٹ میں کہا کہ چینی فرمز نے عالمی بینکوں کے پیش کردہ معاہدوں پر غلبہ حاصل کر رکھا ہے اور بیجنگ نے ان اداروں میں اپنا تعاون 66 ارب ڈالر تک بڑھایا ہے جبکہ جاپان امریکا کے بعد دوسرا بڑھا معاون ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسی کے ساتھ چین کثیر الجہتی مالیاتی ادارے سے امداد کا سرفہرست وصول کنندہ بھی ہے، حالانکہ اسے ان کے درمیان ووٹنگ کی طاقت اور قائدانہ کردار بھی حاصل ہے۔
سی جی ڈی کے ساتھی اور مطالعہ کے مصنف اسکاٹ مورس نے لکھا کہ ’یہ ضروری نہیں کہ یہ خطرناک ہے، امریکا اور دیگر حکومتوں نے طویل مدت بین الاقوامی نظام میں مزید تعاون کے لیے چین پر دباؤ ڈالا ہے اور انہیں یہ کرنا چاہیے‘۔اسکاٹ مورس نے کہا کہ’ یہ ہر ایک کے لیے بہتر ہے کہ چین نظام کے باہر کام کرنے کے بجائے نظام کے لیے کام کرے۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے متعلق نتائج پر مزید جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے تاکہ چین کی پوزیشن غالب آنے کی معقول کوششوں اور ملک کی ترقی کے اہداف کو کمزور کرنے سے روکا جاسکے۔
بیجنگ غریب ممالک کو قرضے دینے میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے، ان ممالک میں اکثر کو قرض کے لیے پریشانی کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چینی فرم (کثیر الجہتی ترقیاتی بینک) کے کمرشل بینکوں پر بھی اس حد تک غالب ہے کہ یہ ان اداروں کےلیےدوسرے ممالک کی سیاسی حمایت کو نظر انداز کرنے کا باعث بن گیا ہے‘۔
محقیقین نے چین کے بڑھتے ہوئے عطیات، ووٹنگ پاور اور 76 بڑے عالمی اداروں میں قائدانہ کردار میں موجودگی کا سراغ لگایا ہے، ان اداروں میں آئی ایم ایف، عالمی ادارہ صحت اور ویکسین فراہم کرنے والا ادارہ گاوی جیسے اقوام متحدہ کے ادارے شامل ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے لیے ووٹنگ کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جس کی اہم وجہ تیزی سے نمو کرتی ہوئی معیشت ہے لیکن چین نے مذکورہ تنظیموں میں اپنی صوابدیدی حمایت میں بھی چار گناہ اضافہ کیا ہے۔
سی جی ڈی پالیسی رہنما سارہ روز کا کہنا تھا کہ’ چین نے عالمی نظام میں واضح طور پر اپنی طاقت اور اثر رسوخ بڑھانے کے لیے یہ انتخاب کیا ہے‘۔
اسکاٹ مورس کا کہنا تھا کہ جغرافیائی سیاسی طاقت کے طور پر چین نے بیلٹ اور سڑکوں سے متعلق اقدامات میں اپنی توجہ بڑھائی ہے اور یہ غریب ترقی پزیر ممالک سے منسلک ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ تصویر بیجنگ کے نقش قدم کو ظاہر کررہی ہے کہ ’چین بین الاقوامی نظام میں کتنا اہم ہوگیا ہے‘۔