فلسطین کی غزہ پٹی کی حکمران جماعت حماس پر برطانیہ نے پابندی عائد کردی۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی وزیرداخلہ پریٹی پٹیل نے کہا کہ اس پابندی کا مقصد برطانیہ کی پالیسی حماس کے حوالے سے امریکا اور یورپی یونین کے مؤقف کے برابر لانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘حماس کے پاس مخصوص دہشت گردی کی صلاحیت ہے، جس میں خاص اسلحے تک رسائی، دہشت گردی کی تربیت دینے کی سہولیات شامل ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسی لیے آج حماس کو مکمل طور پر کالعدم قرار دینے کا اقدام کیا ہے’۔
برطانوی وزارت داخلہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حماس پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی ہوگی اور کوئی حماس کے لیے حمایت کا اظہار کرتا ہے، اس کا جھنڈا لہراتاہے یا اس جماعت کے لیے اجلاس کا انتظام کرتا ہے تو اس کو قانون کی خلاف ورزی قرار دی جائے گی۔
پریٹی پٹیل کی جانب سے اس تبدیلی کو اگلے ہفتے پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ فلسطین میں 1987 میں حماس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، حماس اسرائیل کے وجود اور ان سے مذاکرات کے خلاف ہے اور اسرائیل کے قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کی حمایت کرتی ہے۔
اس سے قبل برطانیہ نے حماس کی مسلح ونگ عزالدین القسام برگیڈز پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔
حماس کے سیاسی عہدیدار سمیع ابو ظہری کا کہنا تھا کہ برطانیہ کا فیصلہ اسرائیلی قبضے اور اسرائیل کی بلیک میل اور ڈکٹیشن کے حوالے سے مکمل طور پر جانب داری ظاہر کررہا ہے۔
حماس نے ایک اور بیان میں کہا کہ قابض قوت کے خلاف مسلح مزاحمت سمیت تمام دستیاب چیزوں سے مقابلہ کرنا بین الاقوامی قانون کے مطابق زیرتسلط لوگوں کا حق ہے۔
برطانیہ میں مغربی کنارے کے صدر محمود عباس کی نمائندگی کرنے والے فلسطینی مشن نے بھی اس اقدام کی مذمت کی۔
قبل ازیں2017 میں پریٹی پٹیل کو برطانیہ کی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
اس سے قبل وہ اسرائیل کے نجی دورے کے موقع پر سینئر اسرائیلی عہدیداروں سے ہونے والی ملاقات سے حکام کو آگاہ کرنے میں ناکام رہی تھی۔
رپورٹ کے مطابق پریٹی پٹیل نے اس وقت کے اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ سے بھی ملاقات کی تھی۔
یائر لیپڈ اس وقت اسرائیل کے وزیرخارجہ ہیں اور انہوں نے برطانیہ کی جانب سے حماس پر پابندی کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے برطانیہ کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہوں گے۔