پاکستان میں جیسے جیسے سردی بڑھ رہی ہے گیس بھی نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ملک کے بیشتر شہروں میں سردی میں اضافے کے ساتھ ہی گیس لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے جس کے باعث گھریلو صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کراچی، پشاور، کوئٹہ، حافظ آباد، گوجرانوالہ، ملتان، سکھر، میرپور خاص میں گیس کی قلت نے شہریوں کو آٹھ آٹھ آنسو رلا دیا ہے۔مہنگائی کے طوفان میں روز روز باہر کا کھانا بھی چیلنج بن گیا ہے جبکہ بلوچستان میں گھریلو صارفین دُہری اذیت کا شکار ہیں اور گرم چائے سے محروم شہری خون جماتی سردی میں گیس ہیٹر جلانے سے قاصر ہیں۔گھریلو صارفین کے علاوہ ملک کے مختلف صنعتی علاقوں میں بھی گیس کی قلت سے پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
دوسری جانب صنعت کاروں نے کراچی میں انڈسٹریز کو گیس دستیابی کی صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔تاجر برادری کا کہنا ہے کہ کراچی کی صنعت کے لیے گیس نہیں، انڈسٹری حکومتی اقدامات سے بالکل مطمئن نہیں ہے۔زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ اگر حکومت بروقت زیادہ ایل این جی کارگوز منگوا لیتی تو گیس کی قلت نہ ہوتی۔اس سے قبل رواں ماہ کے دوران ہی وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میںگیس بحران کے متعلق خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ قوم سے خطاب میں وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ سردیاں آنے والی ہیں، گیس کا مسئلہ آنے والا ہے۔گیس کی قیمتوں کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امریکا میں قدرتی گیس کی قیمت میں 116 فیصد، یورپ میں 300 فیصد جبکہ پاکستان میں گھروں کو دی جانے والی گیس کی کوئی قیمت نہیں بڑھی، سب چیزیں ملک میں پیدا ہوں تو قیمت نہ بڑھنے دیں۔
گزشتہ روز ملک کے بیشتر حصوں میں بدترین گیس لوڈشیڈنگ اور گیس غائب ہونے کی وجہ سے شہری بلبلا اٹھے ، شہریوں کے لیے فی الوقت کسی طور کوئی سہولیات دکھائی نہیں دے رہیں۔ ملک میں حالیہ مہنگائی نے عوام کو بہت بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے ہر چیز پر ٹیکس تو پہلے سے ہی عوام کی جیب سے وصول کی جارہی ہے مگر اوپر سے مہنگائی کا بم گراکر عوام کو دوہرے عذاب میں ڈال دیا گیا ہے۔ ان تمام مسائل میں گھرے عوام مشکل وقت گزاررہی ہے اس لیے نہیں کہ حکمران بہت بڑی معاشی انقلاب تبدیلی لارہے ہیں بلکہ وہ اب مطمئن ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے ہر روز ایک نیا مسئلہ سامنے آنے والا ہے۔اسی طرح سردی کی آمد کے ساتھ ہی گیس بحران کا شدت اختیار کرنا آج کی بات نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس صورتحال کا سامنا عوام کو کرناپڑا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان سے گیس نکلتی ہے اور بڑے پیمانے پر گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں مگر اس کے باوجود عوام کو گیس نہیں مل رہی مگر بھاری بھرکم بل ان کی جیبوں سے وصول کیے جار ہے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ بلوچستان جو دہائیوں سے گیس فراہم کرتا آرہا ہے، آج تک اس کے اکثر علاقوں میں گیس پائپ لائن تک نہیں بچھائی گئی ہے، لوگ مجبوراََ گیس سلینڈر پر گزرا کرتے ہیں اور جہاں گیس پائپ لائن موجود ہے وہاں گیس مستقل بنیادوں پر فراہم ہی نہیں کی جاتی ہے خاص کر سردی کے دوران بلوچستان کے سرد علاقوں میں عوام لکڑی جلاکر گزارا کرتے ہیں حالت تو یہ ہے کہ کوئٹہ جو بلوچستان کا دارالخلافہ ہے یہاں بھی گیس ناپید ہے جبکہ بارہا ڈیرہ بگٹی سوئی کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں تو لوگ آج بھی لکڑی جلانے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کو گیس کی سہولت دستیاب ہی نہیں ۔عوام کی فریاد حکمران نہ جانے کب سنیں گے اور مسائل اور بحرانات کب ختم ہونگے یہ ایک خواب بن کر رہ گیاہے۔