کوئٹہ: بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے شہید قندیل Teacher Of Freedomپروفیسر صبا دشتیاری کی چوتھی برسی کے حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ شہیدِ قندیل بلوچ تحریک کے ایک انمٹ باب ہیں۔بلوچ جہد و نوجوانوں کو متحرک کرنے میں شہید کا کردار اور زبان کی حفاظت و ترویج میں شہید کی خدمات نا قابل فراموش ہیں اور وہ ہر بلوچ فرزند کے دل میں تا ابد امر ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی بلوچ،بلوچی، بلوچیت و بلوچستان کے لیے وقف کی تھی ، بلوچ سیاست میں شہید کا ایک اہم کردار تھا۔ Teacher Of Freedomپروفیسر صبا دشتیاری کی خدمات بلوچ قومی تحریک میں ناقابل فراموش ہیں۔ شہیدِ قندیل کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔شہید نے اپنی پوری زندگی زبان کی ترویج و خدمت اور نوجوانوں کی سیاسی تربیت و نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے وقف کی تھی۔ ترجمان نے کہا کہ دانشوروں کا رول قومی تحریکوں میں رہشون کا ہوتا ہے اور وہ قومی تحریکوں میں ہر جگہ بطور پالیسی ساز اپنا کردارادا کرتے ہیں، صبا صاحب نے اپنا کردار و ذمہ داریاں وخدمات بخوبی سرانجام دیں۔ دنیا میں ہر کہیں جب قومی مزاحمت و قومی شعو ر کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے تو وہ اس قوم کے شعوری منعبوں، دانشوروں و دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیتوں پر وار کرکے انہیں شہید کرتا ہے اور بے دریغ نسل کُشی و نسلی صفایا کا ایک سلسلہ شروع کرتا ہے ۔آج پاکستان بلوچستان میں بالکل اسی نہج پر پہنچا ہے۔ پاکستان کی بر بریت سے ہمارے دانشور،وکلا، صحافی،اساتذہ،دہکان و چرواہا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ا فراد محفوظ نہیں ہیں۔ہزاروں بلوچوں کی نسل کُشی کے ساتھ زاہد بلوچ،پروفیسر رزاق بلوچ اور پروفیسر صبادشتیاری کی ٹارگٹ کلنگ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچوں کی ساحل گوادر کو چائنا کے حوالے کرنے اور بلوچوں کی ساحل و وسائل کو چائنا کے ساتھ مل کر لوٹنے کے غرض سے جو پاک چائنا اقتصادی کوریڈور کا اعلان کیا گیا ہے اس کا مقصد صرف اور صرف بلوچستان میں پنجابی و مہاجر آباد کاری ہے ،ان استحصالی پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حال ہی میں بلوچوں کی نسل کُشی کا ایک تازہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔چائنا کے و زیر اعظم کی پاکستان آمد سے لیکر تا ہنوزجھوٹے نام نہاد مقابلوں کے نام پر سوسے زائد نہتے بے گناہ عام بلوچوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔حالیہ دنوں کوئٹہ و مستونگ کے گرد و نواح سے درجنوں بے گناہ بلوچوں کو پاکستان آرمی نے جبری اغوا کرکے نا معلوم مقامات پر منتقل کیا ہے اور مستونگ واقعے کے بعد اب تک 9بے گناہ بلوچ مسنگ پرسنز کی اب تک لا شیں گرائی جا چکی ہیں اور لاشیں گرانے کا یہ عمل پورے بلوچستان میں تیزی سے جاری ہے۔ترجمان نے کہاکہ ہم نے مستونگ میں پشتونوں کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی مگر اس کا مطلب قطعا یہ نہیں کہ اس واقعے کو جواز بنا کر بلوچوں کا قتل عام کیا جا ئے ۔مستونگ کے اس واقعے سے پہلے تیس32 بلوچوں کو بے دردی سے شہید کرکے لاشیں پھینکی گئیں مگر نام نہاد آزاد میڈیا خاموش تماشائی بنا رہا ، جس کی پرزور مذمت کرکے ایمنسٹی انٹرنیشنل ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو بلوچ نسل کشی کی ارتکاب پر قانون کے کٹہرے میں لائے۔