کوئٹہ : بلوچستان حکومت نے گوادر میں مخدوش صورتحال کے پیش نظر صوبے بھر کے 12 اضلاع سے پولیس اور بلوچستان کانسٹبلری کے پانچ ہزار سے زائد اہلکار گوادر بھیجنے کا حکمنامہ جاری کردیا ہے سی پی او کوئٹہ سے جاری ایک نوٹیفکیشن کے مطابق بلوچستان کانسٹبلری کے 2200 جعفرآباد سے 1300، مستونگ سے 118، زیارت سے 105، پنجگور سے 205، خضدار سے 114، تربت سے 400، نصیرآباد سے 400، قلات سے 30، خاران سے 40، کچھی سے 43، سبی سے 250 اور لسبیلہ سے 250 اہلکار ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز گوادر بھیجے جائیں گے۔
صوبے بھر سے مجموعی طور پر 5500 اہلکار و افسران کی گوادر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد اہلکاروں کو گوادر بھیجنے کی تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں آئندہ چند روز میں اہلکاروں کو گوادر بھیج دیا جائیگا۔دریں اثناء گوادر کو حق دو تحریک کے شرکاء نے اعلان کیا کہ اب صوبائی وزراء سے مذاکرات نہیں کرینگے مذاکرات کے لئے وزیراعلیٰ، کورکمانڈر اور چیف سیکریٹری سے ہونگے جب تک بارڈر ٹریڈ بحال نہیں ہوتا دھرنا جاری رہے گا۔ تفصیلات کے مطابق گوادر کو حق دو تحریک کی جانب سے گوادر پورٹ روڈ پر منعقدہ احتجاجی دھرنے کو اٹھارہ دن مکمل ہوگئے ۔
حق دو تحریک کی کال پر کوسٹل ہائی وے کو مختلف مقامات پر بندکردیا گیا۔ تحریک کے سربراہ مولاناہدایت الرحمن کا کوسٹل ہائی وے کے مختلف مقامات کا دورہ۔ انجمن تاجران کی جانب سے شہر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال۔ احتجاجی دھرنے کے اٹھارویں روز گوادر کو حق دو تحریک کی اپیل پر کوسٹل ہائی اوتھل زیروپوائنٹ۔ اورمارڈہ زیروپوائنٹ۔ پسنی زیروپوائنٹ اور سربندن کراس کو لوگوں نے بند کرکے دھرنا دیا جسکے سبب ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کا کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع رہا جبکہ تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن نے سربندن۔ پسنی اورماڈہ کا دورہ کیا اور بند کی جانے والی جگہوں کا معائنہ کیا۔ اسی موقع پر انجمن تاجران نے بھی گوادر شہر میں مکمل شٹرڈاؤن ہڑتال کرکے گوادر کو حق دو تحریک سے یکجہتی کیا۔ شٹرڈاؤن ہڑتال کے سبب دوکانیں، مارکیٹ اور مالیاتی ادارے مکمل بند رہے ۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن، سنیئر سیاستدان حسین واڈیلہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کوسٹل ہائی کو مختلف مقامات پر بند کرکے ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کے غیور عوام نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس ظالمانہ نظام سے تنگ آچکے ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر آزادانہ سمندر پر شکار اور بارڈر پر کاروبار کرسکیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اب صوبائی وزراء سے مذاکرات نہیں کرینگے مذاکرات کے لئے چیف منسٹر، کورکمانڈر اور چیف سیکریٹری سے ہونگے جب تک بارڈر ٹریڈ بحال نہیں ہوتا دھرنا جاری رہے گا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم اٹھارہ دنوں سے احتجاجی تحریک پر بیٹھیں ہیں لیکن ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے حکومتی نمائندے وقتا فوقتا ًآکر ہم سے مذاکرات بھی کررہے ہیں لیکن سب بے سودہیں اور ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمارا احتجاج قانونی و جائز ہیں ہم کوئی غیر قانونی ڈیمانڈ یا مطالبہ نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا بڑا مطالبہ کررہے ہیں جو حکومت حل نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ سمندر خدا کی طرف سے دی گئی ہے ہمارا روزگار کا زریعہ ہے اورسینکڑوں سالوں سے ہمارے آباؤ اجداد سمندر میں شکار کرکے اپنا گزر بسر کرکے اپنی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں لیکن اس روزگار پر بھی قدغن لگایا جارہا ہے فورسز کی جانب سے ماہیگیروں کو روزانہ تنگ کیا جاتا ہے اور سندھ سے آنے والے ٹرالروں نے سمندر کو بانجھ بنایا ہے ٹرالروں نے ہمارے غریب ماہیگیروں کے لیئے سمندر میں کچھ نہیں چھوڑا ہے جسکا وہ شکار کریں لیکن حکومت بے حس ہوچکی ہے۔
اورہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے عمل نہیں کررہی ہے۔ بارڈر پر ای ٹیگ و ٹوکن سسٹم نے بارڈر پر کام کرنے والوں کو نان شبینہ کا محتاج بنایا ہے ہمارے بہت سے لوگوں کا گزربسر بارڈر پر ہوتا ہے لیکن بارڈر کو عام لوگوں کے لیئے بند کردیا گیا۔ مختلف و غیر ضروری چیک پوسٹوں سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ چیک پوسٹیں صرف عوام کی تذلیل اور انکو بے عزت کرنے کے لیئے بنایا گیا ہے جسکے سبب ان غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ ضروری بن گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سرکار بلوچوں کو قبائلیت و علاقائیت کی بنیاد پر دست وگریبان کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس دھرنے نے ثابت کیا ہے کہ بلوچستان کے تمام بلوچ متحد ہیں۔ بلوچوں کی تاریخ ڈھکی چھپی تاریخ نہیں ہے ہر کوئی بلوچوں کی تاریخ سے آشنا ہے بلوچوں نے اپنے مظلوم عوام کے لیئے جان تک نچھاور کی ہے۔ بلوچوں کو کم عقل و نادان سمجھنے والے بھول رہے ہیں کہ بلوچوں کی تہذیب سے ثابت ھوتا ہے کہ بلوچ نادان نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے دروازے بات چیت کرنے کیلئے ہر کسی کیلئے کھلے ہیں لیکن مذاکرات پر آنے والے لوگ خود بے اختیار ہیں اختیارات کسی اور کے پاس ہیں ہم سرکار کی شاطرانہ ڈپلومیسی سے واقف ہیں۔ جو نقطہ ہمارے زندگی و موت کا مسئلہ ہے اس پرہم وقت نہیں دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ ایک طرف حکومتی وفد مذاکرات کے لیئے آتی ہے تو دوسری طرف پولیس کی بھاری نفری گوادر بلالیا جاتا ہے اس طرح کی منافقانہ طرز عمل سے سرکار باز آجائے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری جدوجہد آئینی ہے لیکن گوادر میں مختلف علاقوں سے پولیس لانے سے ہم خوفزدہ نہیں ہونگے اور نہ ہی حقوق کی جنگ سے دستبردار ہونگے۔ انہوں ں نے کہاکہ پاکستان بلوچستان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے تو جو سلوک پنجاب کے عوام کے ساتھ کی جارہا ہے بلوچستان عوام کے ساتھ بھی وہی سلوک کیاجائے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ کئی سالوں سے بلوچوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے اب بلوچ قوم مولاناہدایت الرحمن کی قیادت میں متحد ہوچکا ہے اسکو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے کہاکہ نوجوانوں کی اتحاد و اتفاق کو دیکھ کر ہمارے جذبے بھی جوان ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب تک ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوگا یہ دھرنا جاری رئیگا۔انہوں نے کہا کہ اب صوبائی وزراء سے مذاکرات نہیں کرینگے مذاکرات کے لئے وزیراعلیٰ، کورکمانڈر اور چیف سیکریٹری سے ہونگے جب تک بارڈر ٹریڈ بحال نہیں ہوتا دھرنا جاری رہے گا۔