|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2021

گوادر: جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ بلوچستان میں سیکورٹی کے نام پر لوگوں کی تزلیل برداشت نہیں کرسکتے فوج سرحدوں پر جاکر اپنا کام کرے ،حکومت کو بلوچوں پر بھروسہ کرنا چاہیے ،ہر کلو میٹر پر لوگوں کی تلاشی لیکر اْنکی تذلیل کرنا قبول نہیں ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گوادر میں حق دو بلوچستان تحریک کے دھرنا سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ جب میں نے اعلان کیا کہ میں گوادر کے عوام سے یکجہتی کے لیے گوادر جارہا ہوں

تو بھارتی میڈیا نے شور مچایا اور پرپیگنڈہ کیا کہ جماعت اسلامی سی پیک کے خلاف ہے اور گوادر کے لوگوں کو سی پیک کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن میں ہندوستان کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اندرونی طور پر سیاسی حوالے سے ایک دوسرے کے چاہیے ہزار اختلافات رکھیں لیکن پاکستانی قوم آپ کے خلاف ابھی بھی یکجاہ ہے اور ابھی بھی دشمن کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے انہوں نے کہا کہ بھارت ایک ظالم اور قابض ملک ہے جو ہزاروں کشمیریوں کا قاتل ہے اور ہم خطے میں بھارتی چودراہٹ کو ہرگز قبول نہیں کرینگے انہوں نے کہاکہ گوادر میں 22 دنوں سے جاری دھرنا بلوچستان کے مظلوم طبقے کی آواز ہے اور تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان نے ہرجگہ بلوچستان کی نمائندگی کررہا ہے اور گوادر کے لوگوں کے جو مطالبات ہیں ہم اْن کے ساتھ ہیں اور 28 نومبر کو اسلام آباد پارلیمنٹ کے قریب ڈی چوک پر بڑی جرآت کے ساتھ وفاقی اور بلوچستان کے سرکار کو کہا تھا کہ گوادر دھرنے کے جو مطالبات ہیں اْنھیں سْننا چاہیے اور حل کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ لیکن موجودہ حکومت اندھی اور گنگی ہے جب تک ہاتھ اْن کے گریبان تک نہ جائے وہ سْن نہیں سکتے انہوں نے کہا کہ گوادر کے لوگ مظلوم ہیں بلوچستان کے لوگ مظلوم ہیں اور 22 کروڑ پاکستانی عوام بھی مظلوم ہیں اور انگریزوں کو بالا طبقہ مظلوم عوام پر حکمرانی کررہا ہے اْن کے غلاموں نے یہاں کی سیاست پر قبضہ کرلیا ہے وسائل پر قبضہ کرلیا ہے اور یہ طبقہ بینکوں سے قرضہ لیکر حکمران بن گئے ہیں میڈیا ہاؤسز اور سیاست پر بھی اْن کا قبضہ ہے اور 22 کروڑ عوام کو سْننے کے لیے عدالتیں بند ہیں اس لیے عوام کے پاس پر احتجاج کا راستہ رہ گیا ہے

انہوں نے کہاکہ مچھ میں جب دس افراد کو شہید کیاگیا جب شہدا کے لواحقین نے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو لیکر احتجاج کیا اور 12 دن تک دھرنا دیا تو یہی کہا گیا کہ یہ ملک کے دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں میں جب وہاں گیا تو دیکھا کچھ خستہ حال خواتین اور پھٹے کپڑے پہنے بچے اپنے والدین کے سرہانے لپٹ کر رو رہے تھے مجھے اْس وقت یہی احساس ہوا کہ یہ غریب لوگ ہیں اس لیے اْن کا کوئی سْننے والا نہیں ہے اگر یہ امیر ہوتے تو آج پاکستان کے آرمی چیف ،وزیراعظم اور تمام قیادت وہاں موجود ہوتا لیکن اس ملک میں غریب کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے لیکن میں حکمرانوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ غریب لوگ ہی اس ملک کے اصل سرمایہ ہیں اور محافظ ہیں انہوں نے کہا کہ کرپٹ قیادت اور کرپشن کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ بھوک پیاسے اور غربت کا شکار ہیں ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے ملک میں سب سے زیادہ کرپشن بلوچستان میں ہوتا ہے یہاں کے 64 فیصد فنڈز کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں بلوچستان کا غیرت مند شہری غریب ہیں

جبکہ پیسے افسران کے گھروں کی ٹینکی سے نکل رہے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچ مانگنے والے نہیں ہیں اللہ پاک نے بلوچوں کو سمندر کا تحفہ دیا ہے لیکن ماہی گیروں سے اْس کے روزگار کو چھین لیا گیا ہے لوگوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے گوادر کا سمندر یہاں کے لوگوں کی ملکیت ہے اور بلوچستان کے عوام کا ہے کوئی بھی طاقت ور مافیا ماہی گیروں سے اْس کا حق چھین نہیں سکتا گوادر کے عوام دہشت گرد نہیں ہیں ہم حساب کتاب کی بات کرتے ہیں یہ کونسا مشکل کام ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہر کلو میٹر کے بعد تلاشی لیکر لوگوں کا تذلیل کیا جاتا ہے سیکورٹی کے نام پر لوگوں کی تذلیل بند ہونی چاہیے اور ہم یہ تذلیل ہرگز برداشت نہیں کرینگے انہوں نیکہا کہ حکومت کو اب بلوچوں پر بھروسہ کرنا چاہیے فوج سرحدوں پر جاکر اپنا کام کرے انہوں نے کہا کہ فوج کے ساتھ اگر عوام نہ ہو تو فوج کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگی انہوں نے کہا بلوچستان میں چیک پوسٹوں کا نظام ختم ہونا چاہیے ،انہوں نے کہا بلوچستان کے قوم پرست گوادر دھرنے میں آنا گوارہ نہیں کرتے اور دھرنے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں لیکن یہ دھرنا مظلوم عوام کے لیے ہے

انہوں نے کہاکہ عمران خان جب اقتدار میں نہیں تھے تو لاپتہ افراد پر سیاست کرتے تھے لیکن اْس کے دور اقتدار میں بلوچ نوجوان لاپتہ ہورہے ہیں بلوچستان پر اب ظلم بند ہونا چاہیے بلوچستان کے ساتھ کھیل اب بند ہونا چاہیے پاکستان کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ہیں تم تنخواہیں لیتے ہو تو آئین کے مطابق کام کریں انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو اب انصاف کرنا چاہیے بلوچستان میں عدالتوں کے ساتھ زمین دوز عدالتیں بھی موجود ہیں اگر ان زمین دوز عدالتوں کے خلاف کارؤائی نہیں کی گئی تو حقیقی عدالتوں پر تالا لگائیں لوگ قبائلی نظام کے تحت اپنے فیصلے خود کرینگے۔