گوادر: سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے نام پر حکمران ترقی کے سہانے ڈھول بجارہے ہیں۔ گوادر کا بلوچ بنیادی ضروریات اور روزگار کے لئے ترساں ہیں۔ بلوچستان حق دو تحریک ناانصافیوں کے خلاف بلوچ یکجہتی اور اتحاد کا استعارہ بن کر ابھری ہے۔ پشتون عوام بلوچستان حق دو تحریک کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے۔ اے این پی اس تحریک کی کامیابی کے لئے ثابت قدم رہے گی۔ ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری ما بت کاکا اور ضلع لسبیلہ کے صدر عبدالعنان افغان نے بلوچستان کو حق دو تحریک کے 31 روز سے جاری دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قائد اسفند یار ولی خان کی ھدایت پر اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے یہاں آئے ہیں۔
بلوچ اور پشتون تاریخی اعتبار سے مشترکہ جدوجہد جہد میں ہمیشہ ایک ساتھ رہے ہیں۔ نیپ کے فلیٹ فارم سے باچا خان، میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل سمیت دیگر اکابرین نے عوام کی حق حکمرانی اور محکوم اقوام کے لئے طویل جدوجہد کی ہے۔ یہ جدو جہد آج بھی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے پیش نظر گوادر کی ترقی کا بہت بڑا چرچا ہورہا ہے لیکن یہاں کا بلوچ بنیادی روزگار کے لئے فکر مند ہے اور حق دو تحریک کے فلیٹ فارم پر روزگار کی اور عزت نفس کی بحالی کے لئے سڑکوں پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حق دو تحریک کو سلام پیش کرتے ہیں کہ اس نے بلوچ یکجہتی اور اتحاد کو مستحکم بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں 47 سے پہلے اور بعد میں جب بھی محکوم اقوام نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تو ان کو غدار قرار دیا گیا بالخصوص بلوچ اور پشتون کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔ کیا مولانا ھدایت الرحمن بھی غدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے اختیار داروں نے مشرقی پاکستان کے واقعہ سے سبق نہیں سیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدارا ملک کو چلنے دیں یہ اس وقت ممکن ہوگا جب ہر صوبے کے عوام کے وسائل پر اس کی حق ملکیت تسلیم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کوئی غریب صوبہ نہیں اصل مسئلہ بلوچ عوام کو اس کے وسائل سے دور رکھا گیا ہے۔
اگر بلوچ کو اپنے وسائل کا مالک بنایا جائے تو وہ پورے ملک کو قرضہ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران اور افغانستان مسلم ملک ہیں جن سے بلوچ اور پشتون وطن کے بارڈر لگتے ہی لیکن اس کو سیکورٹی کے نام پر بند کیا گیا ہے جبکہ انڈیا کو ہمارا ازلی دشمن قرار دیا گیا پے۔ انڈیا کے ساتھ تعلقات جتنے بھی خراب ہوں مگر اس کے ساتھ بارڈر کو ایک دن بھی بند نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ چمن بارڈر پر بھی یہاں کی طرح کے حالات ہیں وہاں روزگار کے حق حصول کے لئے ہمیں دس لاشیں تحفے میں دیا گئی ہیں جس میں ہمارے صوبائی رہنماء اکبر خان اچکزئی بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک ایک ماہ سے جاری ہے لیکن میڈیا اس کو نہیں دکھاتا۔ کہاں ہے وہ آزاد میڈیا جس کی آزادی کے لئے سیاسی کارکنوں نے کوڑے کھائے اور قربانیاں دیں۔ اظہار رائے کی آزادی پر اس قسم کی پابندی فسطائیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے گیس سے پورا پاکستان استفادہ حاصل کررہا ہے لیکن یہ سوئی کے عوام گیس سے محروم ہیں یہ استحصالی نظام نہیں چل سکتا۔ کفر کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہوگا لیکن ظلم کے ساتھ زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہاں سے آرہے کہاں جارہے ہو کا سوال وہ لوگ کرتے ہیں جن کا تعلق اس سرزمین سے نہیں ہے۔ قدم قدم پر چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں لیکن منشیات کی فراوانی ہے جس سے ہمارے نوجوان تباہی کا شکار ہیں۔ پھر یہ منشیات کہاں سے آرہی ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حق دو تحریک کے فلیٹ فارم سے یہاں کی غیرت مند نوجوانوں، بزرگوں، ماوں اور بہنوں کی جد جدوجہد خراج تحسین کے لاحق ہے جس نے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف فیصلہ کن تحریک شروع کرکے حکمرانوں کی نیندیں حرام کی ہیں۔