۔ — فائل فوٹو

|

وقتِ اشاعت :   June 12 – 2015

کوئٹہ:  پشتون آباد میں گشت میں مصروف پولیس کی گاڑی پر فائرنگ کے نتیجے میں اے ایس آئی سمیت چار پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ چھ ملزمان تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے جو فائرنگ کے بعد کالعدم تنظیم کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ پولیس کے مطابق واقعہ کوئٹہ کے علاقے پشتون آباد میں منان چوک پر تھانہ پشتون آباد کی گشت میں مصروف گاڑی رجسٹریشن نمبر QAN9027 پر نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر وزیر محمد ولد حاجی میر احمد سدوزئی ، کانسٹیبل ظاہر خان بڑیچ ولد نیک محمد ، کانسٹیبل محمود الحسن ولد نور محمد اور ڈرائیور کلیم اللہ کاکڑ ولد سلیم محمد جاں بحق ہوگئے۔ فائرنگ کے بعد ملزمان فرار ہوگئے۔ جاں بحق ہونے والے وزیر محمد اور کلیم اللہ پشتون آباد ، ظاہر خان محلہ خالق آباد جان محمد روڈ کوئٹہ کے رہائشی تھے جبکہ محمود الحسن کا تعلق پنجاب کے بلوچستان سے متصل ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے تونسہ شریف سے تھا۔ لاشیں سول اسپتال کوئٹہ پہنچائی گئیں جہاں مقتول اہلکاروں کے ورثاء غم سے نڈھال نظر آئے۔ ورثاء نے صوبائی حکومت ، گورنر اور وزیراعلیٰ کے خلاف غم و غصے کا اظہار بھی کیا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کی ناکہ بندی کرکے ملزمان کی تلاش شروع کردی۔ ڈی آئی جی کوئٹہ کوئٹہ عبد الرزاق چیمہ ، ایس ایس پی آپریشنز اعتزاز احمد گورایا، ایس پی قائدآباد زاہد حسین شاہ بھی موقع پر پہنچے۔ پولیس کے مطابق ملزمان کی تعداد چھ تھی جو تین موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور انہوں نے نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا۔ گاڑی کے اگلے حصے سے نائن ایم ایم پستول کی گولیوں کے چار اور پچھلے حصے سے بارہ خول ملے ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے عینی شاہد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملزمان فائرنگ کے بعد طالبان زندہ آباد کا نعرے لگاتے ہوئے فرار ہوگئے۔ جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کے بعد ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس کے چار اہلکار پشتون آباد کے علاقے میں معمول کے گشت پر تھے کہ اس دورن انہوں نے ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو مشکوک جان کر ان کا پیچھا کیا۔ ایک تنگ گلی میں داخل ہونے کے بعد مشکوک افراد نے پولیس پر فائرنگ کی اور پیچھے سے آنے والے حملہ آوروں کے دیگر مسلح ساتھیوں نے بھی فائرنگ کی۔ دو طرفہ فائرنگ سے تین اہلکار موقع پر ہی جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہوگیا۔ زخمی حالت میں بھی ایک پولیس اہلکار نے گاڑی سے نکل کر حملہ آوروں کو مارنے کی کوشش کی لیکن دو اطراف سے حملہ ہونے کے باعث وہ سنبھل نہیں سکا اور شہید ہوگیا۔ یاد رہے کہ ایک ہفتے کے دوران پشتون آباد میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل چھ جون کو پشتون آباد کے ملاسلام چوک پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بھی ایک سب انسپکٹر سمیت چار اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔ ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ کا کہنا تھا کہ پولیس پٹرولنگ کیلئے ہماری کچھ ہدایات ہیں جو آج کسی وجہ سے پوری نہیں ہوسکی، اکیلی موبائل گاڑی نہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا ، موبائل گاڑی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بھی اہلکار ہوتے ہیں لیکن آج مصروفیات کی وجہ سے موبائل گاڑی کے ساتھ موٹر سائیکل سپورٹ نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ گورنر، وزیراعلیٰ اور زائرین کے روٹ کی سیکورٹی کوئی ایشو نہیں، یہ بھی ہماری ذمہ داریاں ہیں اور انہیں چھوڑ نہیں سکتے، ہم نے اپنے طور پر تمام احتیاطی تدابیر اختیار کئے ہوئے تھے ، اہلکاروں نے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ہم صدمے سے دو چار ہیں،اس طرح کے واقعات ہمارے لئے چیلنج ہیں ، گزشتہ واقعہ سے متعلق ہم رات سے ہی ایک اطلاع پر کام کررہے تھے امید کرتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ میں ملوث دہشتگردوں کو پکڑ لیں گے۔ ایک سوال پر ڈی آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ فی الحال واقعہ میں ملوث تنظیم سے متعلق وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے ، پولیس ملزمان تک پہنچے تو پتہ چل جائے گا کہ کونسی تنظیم ان واقعات میں ملوث ہے۔ ڈی آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ شہر میں دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے تدارک کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔۔ دریں اثناء جاں بحق پولیس اہلکاروں کی میتیں پوسٹ مارٹم کے بعد سول اسپتال سے پولیس لائن منتقل کی گئیں جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، صوبائی سیکریٹری داخلہ اکبر درانی، آئی جی پولیس محمد عملیش ،اعلیٰ سرکاری حکام اور پولیس افسران کے علاوہ مقتول اہلکاروں کے رشتہ داروں نے شرکت کی۔ محمود الحسن کی میت آبائی علاقے ڈیرہ غازی خان روانہ کردی گئی۔ واضح رہے کہ ایک ماہ کے دوران کوئٹہ میں آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت پچیس افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔ سات جون کو میزان چوک پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعہ میں پانچ افراد کی ہلاکت کے بعد کوئٹہ میں دوسری مرتبہ ایک ہفتے کے لیے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری ، اسلحہ ساتھ لیکر چلنے اور پانچ سے زائد افراد کے اجتماع کے علاوہ مردوں کے نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔