کوئٹہ: پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین اختر حسین لانگو نے کہاہے کہ سرکاری بسوں میں سفر کرنے والے ملازمین سے مکمل کنونس الائونس کاٹنا ناانصافی ہو گی جن ملازمین کے پاس سرکاری گاڑیاں ہوں ان سے کنونس الاونس کی کٹوتی کا جواز بنتا ہے لیکن پک اینڈ ڈراپ لینے والے ملازمین سے سرکاری گاڑی رکھنے والے ملازمین کی طرح مکمل الاونس کاٹنا ٹھیک نہیں ہو گاپی اے سی اپنے سابقہ رپورٹ میں ایک ارب 25کروڑ روپے مختلف محکموں سے ریکور کرکے سرکاری خزانے میں جمع کراچکی ہیں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعرات کے روز محکمہ ایس اینڈ ڈی اے جی کے ساتھ منعقد ہونے والے اجلاس میں کہی ۔ چیئرمین پی اے سی نے آڈٹیر جنرل بلوچستان کی جانب سے اٹھائے گئے پیرے پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی ملازم کو اپنی دفتری کام نمٹانے کیلئے آفس میں دیر تک رکناپرتاہے تو ان کیلئے سرکاری بسیں انتظار نہیں کرتی۔ سرکاری بسوںمیں سفر کرنے والے ملازمین سے صرف پک اینڈ ڈراپ تک کی حد تک رقم وصول کرنی چاہئے ۔ پی اے سی نے متعلقہ پیرے پر بحث کرتے ہوئے ہدایات جاری کی کہ محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ایک ماہ کے اندر کمیٹی بنا کر اس مسئلہ کو حل کریں تاکہ آڈٹ کی جانب سے کوئی ایسا پیرا نہ لگے ۔
دوران اجلاس چیف پائلٹ کی عدم شرکت پر کمیٹی ممبران نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیف پائلٹ پی اے سی کے اجلاسوں کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں محکمہ، پائلٹ کو شوکاز نوٹس جاری کر کے کمیٹی کو اس حوالے سے آگاہ کریں۔ آڈئٹر جنرل بلوچستان کی جانب سے اٹھائے گئے ایک پیرا جس میں آل پاکستان یونیفائڈ گریڈز (اے پی یو جی)کے ملازمین کو ائیر پیسج چارجز کی مد میں ادائیگی پر اعتراض کیا گیا تھا ۔ کمیٹی نے متعلقہ پیرے پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ اگر وفاق ان ملازمین کو یہ پیکیج دینا چاہتی ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن غریب صوبہ ایسے پیکجزکا متحمل نہیں سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی نے اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس پیکج کو ہم نے معطل کر دیا ہے کمیٹی کے اجلاس میں انجینئرزمرک خان اچکزئی، ملک نصیر احمد شاہوانی، زابد علی ریکی نے شرکت کی۔ گورنینس اینڈ پالیسی پروجیکٹ بلوچستان اور اکاونٹیبلٹی لیب پاکستان کی جانب سے بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنس کے طلبا و طالبات کو پی اے سی کا خصوصی مطالعاتی دورہ کرایا گیا ۔ طلبا و طالبات نے اجلاس میں خصوصی شرکت کر کے کاروائی کا جائزہ لیا ۔
اجلاس کے آخر میں ممبران کمیٹی اور چئیرمین نے طلبا وطالبات کو سوالات و جوابات کا موقع فراہم کیا۔ اسٹوڈنٹس نے پی اے سی اور اسکے اہمیت کے حوالے سے کئی سوالات کئے جس پر چیئرمین کمیٹی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کے کم اجلاسوں کی وجہ سے صوبے کے عوام اسکی اہمیت و افادیت کے بارے میں کم علم رکھتے ہیں ۔ اس مرتبہ پی اے سی کے اجلاس سابقہ ادوار سے زیادہ ہو رہے ہیں ۔ زیادہ اجلاسوں کی وجہ سے عوام میں اس فورم کی اہمیت و افادیت زیادہ بڑھے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ واحد کمیٹی ہے جس نے بلوچستان کی تاریخ میں اپنی پہلی رپورٹ ہاوس میں ٹیبل کی ہے اور اس کمیٹی کا کوئی اپیلنٹ کورٹ نہیں ہے اسکے ہدایات کو چلینج نہیں کیا جاسکتا۔ چئیرمین نے مزید کہا کہ پی اے سی کے پاس 1985 کے ڈیڈ لاک پڑے ہیں۔ اپنے آخری رپورٹ میں اس کمیٹی نے ایک ارب 25 کروڑ روپے مختلف محکموں سے ریکورئی کر کے خزانے میں جمع کر اچکی ہے۔