اسلام آباد: سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہاہے کہ منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے قانون کا پارلیمان میں مقابلہ کریں گے ،ٹی ایل پی ،ٹی ٹی پی اور آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدوں پر پارلیمان اور عوام کوتاریکی میں رکھا جارہاہے ۔
جبکہ قائدایوان سینیٹ ڈاکٹرشہزاد وسیم نے کہا کہ منی بجٹ پر کابینہ میں بحث ہی نہیں ہوئی ،مفروضوں پر بات کرنامناسب نہیں ،تحریک انصاف پانچ سالوں میں 55ارب ڈالر قرض واپس کرے گی تین سال میں 29ارب واپس کرچکے ن لیگ نے پانچ سال میں 27ارب ڈالرقرض واپس کیا،قرض سابقہ حکومتوں نے لیاہم واپس کررہے ہیں سوال اپوزیشن سے ہوناچاہیے ۔اپوزیشن نے مطالبہ کیاکہ افغان مسئلہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے پارلیمنٹ سے باہر معائدہ ہوگاتووہ اپوزیشن کو قابل قبول نہیں ہوں گے۔ارکان پارلیمنٹ کے بینک اکائونٹ کے لیے سخت شرائط پر معاملہ خزانہ کمیٹی کوبھیجتے ہوئے گورنراسٹیٹ بینک کوکمیٹی میں طلب کرنے کی ہدایت کردی۔سینیٹ اجلاس جمعہ تک ملتوی کردیاگیا۔بدھ کوسینیٹ کااجلاس چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کے زیرصدارت پارلیمنٹ ہاوس میںہوا۔
ایجنڈا مکمل ہونے کے بعدسابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے عوامی اہمیت کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہاکہ جب ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ ہواتو کہاگیا کہ اگلے دس دن میں تفصیلات آجائیں گئیں مگر کئی دس دن گزر گئے مگر تفصیلات سامنے نہیں آئیں ۔ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدہ ہو تب بھی پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا کہاگیا جب مذاکرات مکمل ہوں گے تو تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا ٹی ٹی پی نے خلاف ورزی کیں حملوں میں شہادتیں ہوئیں مگراس حوالے سے آج دن تک پارلیمان اور عوام کو مکمل طور پر تاریکی میں رکھاگیاہے ، میڈیا پر چلنے والی خبروں میں یہ بات سامنے آئی کہ کابینہ اجلاس میں منی بجٹ کو موخر کردیا گیا اور حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ بات طے کرنا چاہتی ہے کہ آرڈیننس سے اس منی بل کو نافذ کیا جائے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ جو ڈاکومنٹ آف سلنڈر ہوااس کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔اس کے بعدگیس ،بجلی اور تیل میں اضافہ ہوا مہنگائی ہوئی مگر عوام کو اس حوالے سے نہیں بتایا گیا ۔سٹیٹ بینک کی خود مختاری کے لیے قانون میں ترمیم کی جارہی ہے یہ سب سے خطرناک بات ہے ۔جو ڈاکومنٹ آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیا ہے اس سے سٹیٹ بینک پاکستان کے دائرہ اختیار سے باہر نکل جائے گا اور وہ صرف آئی ایف ایف کو جواب دے ہوگا ۔قومی فیصلے پارلیمان میں نہیں ہوتے اور نہ ہی پارلیمان کو آگاہ کیا جارہاہے ۔ہم منی بجٹ اور سٹیٹ بینک کی خود مختاری گروی رکھنے کے بل کا پارلیمان میں مقابلہ کریں گے ۔قائدایوان سینیٹ ڈاکٹرشہزاد وسیم نے کہاکہ منی بجٹ پہلے کابینہ میں آتا ہے اور وہاں پر منظوری کے بعد وہ ایوان میں لایا جاتا ہے ۔جب پارلیمنٹ سیشن میں ہوں تو آرڈنینس نہیں لایا جاسکتا ہے ۔ان حالات میں کس طرح آرڈیننس کی بات کی جارہی ہے ٹھوس بنیاد پر بات کی جائے انہوں نے انکشاف کیاکہ منی بجٹ پر کابینہ میں بحث ہی نہیں ہوئی ۔
سٹیٹ بینک کے حوالے جب قانون آجائے تو بات ہوسکتی ہے مفروضوں پر بات نہ کی جائے یہ مناسب نہیں ہوگا ۔آئی ایم ایف معائدے کے باوجودحکومت پوری کوشش کررہی ہے کہ کم ازکم بوجھ عوام پر پڑے ۔سابقہ حکومتوں نے ملک کو جن قرضوں کی دلدل میں دھکیلا وہ سب کے سامنے ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے پانچ سالوں میں 55ارب ڈالر قرض واپس کرناہے ۔ہم تین سال کے اندر 29ارب ڈالر قرض واپس کرچکے ہیں ۔مسلم لیگ کی گذشتہ پانچ سالاحکومت نے 27ارب ڈالر واپس کئے ہیں یہ سابقہ حکومت کی طرف سے لیے ہوئے قرضے ہیں ۔تحریک انصاف نے اس سال 12.2ارب ڈالر قرض واپس کرناہے اور اگلے سال قرض کے مزید 12.5ارب ڈالر واپس کرنے ہیں۔
اس سب کے بعد اب سوال تو آپ سے کرنا ہے آپ نے یہ قرضے لیے تھے۔سینیٹربہرمند تنگی نے کہاکہ چین سے 6ہزار میڈیکل طالب علم پاکستان میں ہیں اور وہ آن لائن کلاس لے رہے ہیں آن لائن کلاس کو پی ایم سی نہیں مانتا ۔حکومت چین سے بات کرے کہ ان طلبہ کو ویزہ جاری کیا جائے ۔ چیئرمین سینٹ نے کہاکہ فارن آفس سے یہ معاملہ اٹھائیں گے ۔سینیٹرطاہر بزنجو نے کہاکہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہمیں اپنے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔مگر اپنے ملک میں بھی غربت اور مفلسی کو دیکھنا چاہیے بلوچستان میں بھی 60فیصد آبادی غربت کا شکار ہے ۔بلوچستان کے وسائل کو بے دردی اے لوٹا جارہاہے ۔ گوادر میں عوامی حقوق کیلئے تاریخی مظاہرہ ہوا ۔بلوچستان کے عوام کو متعدد مسائل درپیش ہیں ۔ او آئی سی اجلاس بلا کر اچھا کام کیا ہے ۔مگر افغان مسئلہ پر اپنے پارلیمنٹ کا اجلاس کیوں نہیں بلایاجارہاہے ۔افغان مسئلہ پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جائے جو معاہدے پارلیمنٹ کے باہر ہوں گے وہ اپوزیشن کو قابل قبول نہیں ہوں گے ۔