|

وقتِ اشاعت :   June 19 – 2015

کوئٹہ: متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں پاکستانی اور برطانوی حکومت کو مطلوب دو مبینہ ملزمان کو بلوچستان کے پاک افغان سرحدی شہر چمن سے گرفتار کرلیا گیا۔متحدہ قومی موومنت سے تعلق رکھنے والے گرفتار ملزمان محسن علی اور خالد شمیم افغانستان سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہورہے تھے ۔گرفتار افراد کو کوئٹہ منتقل کردیا گیا اور یہاں سے انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کے انتظامات کئے جارہے ہیں۔ فرنٹیئر کور بلوچستان کے ترجمان کے مطابق پاک افغان چمن سرحد پر چیکنگ کے دوران دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیاجو قانونی دستاویزات کے بغیر افغانستان سے پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ دوران تفتیش گرفتار افراد نے اپنی شناخت محسن علی اور خالد شمیم بتائی ۔ دونوں کا تعلق کراچی کی سیاسی جماعت سے ہے ۔ ایف سی ترجمان کے مطابق گرفتار افراد سے اہم انکشافات متوقع ہیں ۔ انہیں مزید تفتیش کیلئے ایف آئی اے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ایف سی ترجمان کے مطابق دونوں افراد کی گرفتاریوں سے متعلق وزارت داخلہ کو آگاہ کردیاگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گرفتار افراد کو سخت سیکورٹی میں کوئٹہ کے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ دونوں افراد کو اسلام آباد منتقل کرنے کیلئے بھی انتظامات شروع کردیئے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں بھی انہی ناموں کے افراد مطلوب ہیں۔ عمران فاروق کو 16ستمبر2010ء کو برطانوی شہر لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کے انٹرنیشنل دفتر کے قریب چاقو کے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ محسن علی عمران فاروق قتل میں براہ راست جبکہ خالد شمیم قتل میں ملوث افراد کا سہولت کار تھا۔ خالد شمیم کراچی کے ماڈل کالونی میں قتل کے مقدمے میں بھی مطلوب تھے جبکہ محسن علی کے خلاف کراچی میں کوئی مقدمہ درج نہیں ۔ خالد شمیم کی بیگم بینا خالد نے اپنے شوہر کی گمشدگی اور بیرون ملک حوالگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ خالد شمیم کراچی واٹر بورڈ کا ملازم ہے، چھ جنوری دو ہزار گیارہ کو وہ بچوں کو سکول چھوڑنے کے لیے جا رہے تھے کہ ان کے شوہر ملیر ہالٹ پر اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکلوانے کے لیے رکے۔اس دوران سفید اور سلور رنگ کی دو گاڑیوں میں جن کی نمبر پلٹیں سبز تھیں، سوار لوگ ان کے شوہر کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کی اس درخواست پر عدالت نے پولیس سے تفصیلات طلب کی تھیں جس کے جواب میں ایس ایس پی غربی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ خالد شمیم ماڈل کالونی میں قتل کے مقدمے میں مطلوب ہے، پولیس نے مخبروں اور اپنے طور پر معلومات حاصل کی ہے مگر ان کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔یاد رہے کہ جنوری2014ء میں برطانوی ٹی وی بی بی سی ’نیوز نائٹ‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں دو پاکستانیوں کو بھی شناخت کیاگیا ہے جو مبینہ طور قتل کی واردات کے فوراً بعد اسی شام ہیتھرو ایئرپورٹ سے سری لنکا پرواز کر گئے تھے اور اطلاعات کے مطابق انھیں سری لنکا سے کراچی پہنچنے پر ہوائی اڈے کے رن وے پرگرفتار کیا گیا تھا۔بی بی سی کے مطابق پاکستانی حکام سے موصول ہونے والی دستاویزات میں ان دنوں کی شناخت محسن علی سید اور محمد کاشف خان کامران کے ناموں سے کی گئی تھی۔ محسن علی سید فروری 2010 میں پاکستان سے برطانیہ پہنچے تھے اور جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ میں قیام پذیر رہے۔ محمد کاشف خان کامران ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی واردات سے کچھ دن قبل لندن پہنچے۔ ٹیلی فون کے ریکارڈ کے مطابق کاشف خان کامران برطانیہ میں قیام کے دوران مسلسل محسن علی سید کے ساتھ رہے۔یہ دونوں مطلوب افراد لندن پڑھنے کی غرض سے آئے تھے اور انھوں نے مشرقی لندن کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا۔بی بی سی کے مطابق ان دونوں مطلوبہ اشخاص کے ویزا فارموں کی توثیق کراچی کے ایک بزنس مین معظم علی خان نے کی تھی جو 2010 میں افتخار حسین سے مسلسل رابطے میں رہے۔ معظم علی خان سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔