کوئٹہ: جمعیت علماء اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی و اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت نے ہمارے جمہوری احتجاج کا مثبت جواب نہیں دیا کیا جمہوریت کے نام نہاد دعویدار دھرنا طرز سیاست کے قائل ہے یا اپوزیشن کی جماعتوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ بلوچستان اسمبلی کے باہر جب تک دھرنے نہ دیں تو ان کی کوئی بات تسلیم نہیں کرینگے چاہئے وہ ہمارا حق ہی نہ ہو اگر وزیراعلیٰ یہی چاہتے ہے کہ تو اپوزیشن جماعتوں کیلئے دھرنے دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔یہ بات انہوں نے اپوزیشن کے بجٹ اجلاس سے بائیکاٹ اور اسٹیڈنگ کمیٹیوں کے بائیکاٹ کے بعد حکومت کی غیر جمہوری رویے پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہی‘انہوں نے کہاکہ ہم نے جمہوری احتجاجی طرز عمل کو اپناتے ہوئے پہلی بار اسٹیڈنگ کمیٹیوں کی چےئرمینوں کے اجلاس سے بائیکاٹ کی جوکہ جمہوری احتجاج کا عکاس تھا توقع یہی کررہے تھے کہ جمہوریت کے نام دعویدار قوم پرست اپنی ہٹ دھرمی سے ہٹ جائینگے لیکن ایسا نہیں کیاگیا اب ایک بار پھر اپوزیشن کے نام پر ہمارے اضلاع کو نظر انداز کرتے ہوئے ترقیاتی عمل سے محروم رکھاگیا ہے جس کے جانب ہم نے حکومت وقت کی توجہ مرکوز کرائی کہ وہ بجائے اپنی پارٹی کارکنوں کے ذریعے ان اضلاع میں کام کرائے اپوزیشن کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے وہاں پر ترقیاتی منصوبے کو آگے بڑھائیں لیکن قوم پرستی کے نام عویداروں نے ایسا نہیں کیا جس پر تمام اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی اجلاس سے بائیکاٹ کیا لیکن مخصوص اس بات پر اپوزیشن کی دل جوئی کی کوشش کی گئی کہ ان کو منا لینگے انہوں نے کہاکہ یہ حکومت کی خوش فہمی ہوگی کہ مخصوص اس طرح کے زبانی کلامی باتوں سے ہمیں مطمئن کیا جائیگا اس وقت صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے جمعیت علماء اسلام ‘بی این پی مینگل ‘عوامی نیشنل پارٹی‘بی این پی عوامی صوبے میں اپنا عوامی قوت رکھتی ہے جس سے اشربادی حکومت کا انکار ممکن نہیں ہوسکتا اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ان تمام جماعتوں کو جو صوبے کی نمائندہ جماعتیں ہے کو نظر انداز کرکے صوبے کے معاملا ت اپنے مرضی سے چلانے کی کوشش کرینگے تو یہ ان کی خام خیالی ہوگی نادان دوستوں میں گرے ہوئے وزیراعلیٰ شاید بغض معاویہ اس طرح کے اقدامات اٹھارہے ہیں جو جمہوری حکومت کے شایایہ شان نہیں انہوں نے کہاکہ اگر جمہوری احتجاج صوبائی حکومت کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تو اسمبلی سے لیکر ہاکی چوک تک دھرنا دیکر صوبے کی ان سب سے بڑی عوامی جماعتوں کیلئے کوئی بڑی بات نہیں ہوگی کل پھر یہ نام نہاد جمہوری پسند حکومت یہی کہیں گی کہ ہم نے جمہوریت اور جمہوری رویوں کو نظر انداز کردیا ہے کیونکہ ہم جمہوری لوگ ہے اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں بلوچستان کے عوام کو ہم اپنا گواہ بنا کر آج الل اعلان کہتے ہیں کہ صوبے میں جمہوری روایات کیخلاف حکومت ہے جس کی نظر میں جمہوری احتجاج اور روایات کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ ہم ان غیر جمہوری قوتوں کی طرح جنہوں نے شاہراہ دستور بند کیا کل انہی پارٹیوں کے سربراہان کھڑے ہو کر قومی اسمبلی میں بیانات دے رہے تھے کہ یہ غیر جمہوری لوگ ہے آج ہم ان سے پوچھتے ہیں کہاں ان کی جمہوریت پسندی کہ صوبے کی اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا ہے ہم نے وہ تمام جمہوری طرز احتجاج کو اپنا یا لیکن ان کے کان پر جوں کے توں نہیں رینگتی کل اگر ہم اپنے مطالبات کے حق میں دھرنا دینگے تو ملکی سطح پر ان کے پاس کیا جواز ہوگا کیونکہ انہوں نے ہمارے جمہوری احتجاج کو یکسر مسترد کردیا ہے آج ہم ان کو مشورہ دیتے ہیں کہ یہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر اپوزیشن کے احتجاج اور مطالبات کا جمہوری جواب دیں نہ ہی تو یہ چھوٹے روڈ بند کرنا ہمارے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔