|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2022

کوئٹہ:  بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ ریکوڈک منصوبے پر کوئی ایسا معاہدہ قبول نہیں جو بلوچستان کے عوام کے استحصال کا باعث بنے، ریکوڈک معاہدے میں بلوچستان کو منافع میں 50فیصد حصہ دینے کے ساتھ ساتھ صوبے میں ریفائنری قائم کی جائے ، عوامی مفادات کے خلاف معاہدہ ہوا تو اس پر دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے اسمبلی، عوام سمیت ہر فور م پر احتجاج کریں گے۔

بی این پی جام کمال خان کی حکومت ختم کرنے کے ثواب میںشامل تاہم قدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شامل نہیں ہے ،ہمارے فیصلے آرہے ہیں لو گ دیکھیں گے ہم کتنے فرنڈلی ہیں، ملک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی حکومت ہے ،نئے انتخابا ت کے لئے ماحول ہموار اور ناخوشگوار کرنے والوں کے سامنے ہم بے بس ہیں۔

یہ بات انہوں نے اتوار کو کوئٹہ میں اپنی رہائشگاہ پر بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر بی این پی کے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پرنس آغا موسیٰ جان بلوچ، رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ، پارلیمانی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی، موسیٰ بلوچ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ بی این پر ہمیشہ ترقی مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا ہم ترقی کے مخالف نہیں بلکہ ترقی کے نام پر بلوچستان کے عوام کے استحصال کے مخالف ہیں بلوچستان میں سوئی سے 1952سے گیس نکا لی جارہی ہے صوبہ ملک کو 46فیصد گیس فراہم کرتا تھا جو اب 15فیصد ہے مگر آج تک بلوچستان کے لوگ اس گیس سے محروم ہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 52کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو اسکی گیس کی رائلٹی بھی خیرات کے طور پر دی جاتی ہے وہ پوری ادا نہیں کی جاتی آج تک ڈیرہ بگٹی کے لوگ لکڑیا ں جلانے پر مجبور ہیں ملک میں بجلی اور گیس کا اگرچہ بحران ہے مگر بلوچستان کے لوگ اپنی ہی گیس سے محروم ہیں ترقی کے نام پر بلوچستان کے وسائل لوٹے گئے سیندک پر کام ہونے سے روزگاری کے بجائے معدنی دولت لوٹی گئی سی پیک میںگوادر بلوچستان کا نام استعمال ہوا۔

مگر اصل ترقی دیگر حصوں میں ہوئی ہم نے 1999میں رتوڈیرو گوادر شاہراہ کو استحصالی منصوبہ قرار دیا تھا 2013کے بعد سی پیک کے نام پر گوادر کی تشہیر پوری دنیا میں کی گئی مگر 65ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود آج گوادر کے عوام پانی، بجلی، روزگار، ماہی گیری سے محروم ہیں، ٹرالر آکر مقامی لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اعتماد کا فقدان احساس محرومی، بغاوت اور آزادی کے جھنڈے اٹھانے کی وجہ بنا ہے پانچ سے چھ ملٹری آپریشن کے پیچھے حکمرانوں کی ناانصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک کسی نئے معاہدے پر یقین نہیں کریں گے جب تک گزشتہ خدشات کو دور نہیں کیا جاتا ہمارے چھ نکات میںمسنگ پرسنز کی بازیابی، وفاقی سروسز میں بلوچستان کے کوٹے ، گوادر اور بلوچستان کے عوام کو اقلیت میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لئے قانون سازی، معدنی وسائل کی لوٹ مار کی روک تھام کے لئے ریفانری قائم کرنے کی نشاندہی کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیندک سے کتنا سونا، تانبا، سلور نکالا گیا اسکا کوئی اندازہ نہیں ہے بلوچستان کو صرف 2فیصد رائلٹی کا ایک پرچہ تھما دیا جاتا ہے اسی طرح صوبے سے نکلنے والی گیس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے وسائل پر سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کا نیا معاہدہ کرنے سے قبل ماضی کے گناہ تو بخشوا لئے جائیں بی این پی تب تک کسی معاہدے کی حمایت نہیں کریگی جب تک صوبے کے جملہ مسائل کے حل پر عملدآمد نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ بلوچستان کو ریکوڈک کے نئے معاہدے میں 25فیصد منافع حاصل ہوگا ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کا حق 50فیصد ہے اور بلوچستان کے لوگوں کے وسائل پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے یہاں ریفائنری قائم کی جائے جس سے پتہ چلے کہ صوبے سے کس مقدار میں معدنیات نکالی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ سروے کے مطابق ریکوڈک میں کل482مربع کلومیٹر رقبے میں 6لاکھ ٹن کاپر اور 18سے 19لاکھ ٹن ریئر ارتھ میٹلز ہیں جبکہ ریکوڈک میں بیرک گولڈ کمپنی کو 100کلو میٹر مائننگ لیز جاری کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ کیا دیگر 382کلو میٹر علاقہ بھی اسی کمپنی کو دیا جائیگا یا دیگر کمپنیاں بھی آئیں گی اگر موجودہ کمپنی صوبے میں ریفائنری لگانے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو کسی دوسری کمپنی کو ریکوڈک منصوبہ دیا جائے جو ریفائنری لگانے کی اہل ہو ایسا کرنے سے صوبے میںبے روزگاری کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہوگاانہون نے کہا کہ بلوچستان خطے کا امیر ترین علاقہ کہلایا جاتا ہے مگر یہاں کے لوگ غریب ترین ہیں کیونکہ انکا ترقی کے نام پر استحصال ہورہا ہے ہم ریکوڈک معاہدے کی اس وقت تک حمایت نہیں کریں گے جب تک ہمارے مطالبات پر عملدآمد نہیں کیا جاتا اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم معاہدے کی مخالفت کریں گے اور دوسری جماعتوں سے بھی اس حوالے سے رابطے کریں گے انہوں نے کہا کہ بی این پی ریکوڈک کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائی ہے ہم نے ہی معاملے کو اسمبلی میں اٹھایا جس پر حکومت نے ان کیمرہ بریفننگ دی۔

ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ بی این پی جام کمال خان کو ہٹانے کے ثواب میں شامل تھی مگر قدوس بزنجو کو لانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں ہم پارلیمانی سیاست کر رہے ہیں گزشتہ حکومت نے اس حد تک مجبور کیا کہ ہم نے آئین کے تحت اسے نکالا سابق وزیراعلیٰ نے منتخب اراکین کے اختیارات ، ترقیاتی عمل سمیت انتظامی امور میں ان لوگوں کو شامل کیا جو یونین کونسل کی سیٹ بھی نہیں جیت سکتے تھے ہمیں سابق وزیراعلیٰ کو نکالنے کی خوشی تھی لیکن موجودہ وزیراعلیٰ کے آنے پر افسوس نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ سی پیک پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور جن حکومتوں نے اس پر دستخط کئے وہ بھی آج پچتا رہے ہیں ہمارا موقف تب بھی وہی تھی اور اب بھی ہم دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپنا فرض ادا کریں گے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہونے والے معاہدے پڑھے ہوتے تو آج اس پر آنسو نہیں بہاتے آج شاید لوگ سیاسی طور پر بالغ ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے قوائد کے تحت فلو کراسنگ ثابت کرنے کے لئے الیکشن کمیشن میں ثبوت دینے ہوتے ہیں چونکہ سینیٹ انتخاب خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوئے اس وجہ سے ووٹ نہ دینے والی رکن کی صرف پارٹی رکنیت ختم کی گئی جو کوئی بھی پارٹی فیصلے کی خلاف ورزی کرتا ہے اسکے خلاف ایکشن لیا گیا ہے یہ اب انکا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اسمبلی رکنیت رکھتی ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگ پہلے ایک سال میں سر پیٹتے تھے اب ہر ماہ سر پیٹ رہے ہیں ایک منی بجٹ میں 17فیصد ٹیکس بڑھا دیا گیا دو ہفتے قبل پیٹرول کی قیمت تین روپے کم اور بعد میں پانچ روپے اضافہ کیا جاتاہے ملک تباہی کی طرف انہی اقدامات سے بڑھتے ہیں لگ یو ں رہا ہے کہ فیصلے حکومت، پارلیمنٹ، کابینہ نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کرانے ،تاریخ دینے والے ہم ہوتے تو ٹھیک ہوتا مگر الیکشن کروانے والے اور حالات ہموار ، ناخوشگوار کرنے والوں کے سامنے ہم بے بس ہیں ایک سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ پی ڈی ایم ایک متحرک تحریک بن کر سامنے آئی تھی جس سے نہ صرف حکومت بلکہ حکومت کو لانے والوں کے پائوں میں لرزش آگئی تھی مگر پی ڈی ایم حالات اور مواقعوں کا فائدہ نہیں اٹھا سکی جس سے کچھ جماعتیں پی ڈی ایم سے نکل گئیں مگر ہم مایوس نہیں ہیں اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں نکات پر قائم رہیں تو ملک کے مستقبل کے لئے بہتر ہوگا انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سر پر ہاتھ نہیں بوٹ تھا۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کے خلاف سینٹرل کمیٹی یا کابینہ کے ارکان سوشل میڈیا یا میڈیا میں جائیگا انہیں شوکاز دے دیا ہے اسکا جب جواب آئیگا تو اس پر پارٹی فیصلہ کریگی انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں جو فیصلے آرہے ہیں ان سے دیکھ لیں گے ہم کتنے فرنڈلی ہیں انہوں نے کہا کہ بی این پی ہمیشہ موثر آواز بن کر ابھر ی ہے ہم کسی اور کی ذمہ داری نہیں لے سکتے جب میری شکل کیمرے کو پسند نہیں تو دیگر سینیٹرز کی کیسے پسند آتی۔