مہذب معاشرے اور ممالک کی ترقی کا کلیدی کردار قانون سازی اور نصاب پر ہی منحصر ہے اگران دواہم جز پر توجہ نہیں دی جاتی تو معاشرے میں زوال کا عنصر حاوی ہوجاتا ہے۔
قانون ساز ادارہ اسمبلی ہے جس میں ملک میں معاشرتی، سماجی سمیت تمام حوالے سے قوانین بنائے جاتے ہیں ۔گزشتہ ستر سال سے زائد عرصے کے دوران ماضی کی تمام تر قانون سازی کا جائزہ لیاجائے اور ان کے فائدے ونقصانات کو پرکھاجائے یہ اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس سمت جارہا ہے اگر نہیں لیاگیا
تو یہ کمزوری بلکہ المیہ حکمرانوں کا ہے عوام کا نہیں کیونکہ عوام ریاست کے اندر قوانین کے پابند ہوتے ہیں ملک کو چلانے کے لیے دستور موجود ہے ترامیم کی گنجائش ہے پھر بھی آج ہم بدعنوانی اور جنسی جرائم جیسے مسائل سے دوچار ہیں تو اس کی وجوہات کیا ہیں اس کاسدباب کیسے ممکن ہوسکتا ہے یہ پہلوڈھونڈنا اب وقت کی اشد ضرورت بن چکی ہے کیونکہ یہ بات واضح ہے کہ کرپشن بدعنوانی، اقرباء پروری ہمارے معاشرے میں پنجے گاڑھ چکی ہے مگر کمزور قوانین کے باعث اس کا ازالہ اب تک نہیں ہوسکا ہے۔
اسی طرح جنسی ریپ جس میں خواتین سمیت چھوٹے بچے اور بچیاں شامل ہیں کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اس کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے یقینا وہ بھی قانون کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کا عالمی اسکالرز کے ساتھ مکالمہ کے دوران کہنا تھا کہ بدعنوان قیادت ہی کرپشن کو قابل قبول بناتی ہے۔معاشرے میں جنسی جرائم میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور معاشرے کو کرپشن اور جنسی جرائم کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ زیادتی کے واقعات کے خلاف ہمیں لڑنا ہو گا اور بدعنوان قیادت ہی کرپشن کو قابل قبول بناتی ہے اس لیے ہمیں کرپشن کو بھی ناقابل قبول بنانا ہو گا۔
عمران خان نے کہا کہ موبائل فون کی وجہ سے ہمیں مسائل کا سامنا ہے کیونکہ موبائل فون سے معلوماتی مواد کے ساتھ فحش مواد بھی ملتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زیادتی کے واقعات خواتین کے ساتھ بچوں کے ساتھ بھی ہو رہے ہیں اور بہت سارے معاشروں کو اس صورت حال کا سامنا ہے۔
پاکستان سمیت مسلم ممالک کو ایک جیسے مسائل درپیش ہیں۔ بہرحال جنسی واقعات کا مسئلہ موبائل فونزسے قطعی طور پر جوڑا نہیں جاسکتا کیونکہ اس سے آج ہم جدیدیت سے آشنا ہوئے ہیں اور آج ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی ترقی کے منازل طے کئے جارہے ہیں اگر موبائل فون کا غلط استعمال ہورہا ہے اورجنسی واقعات پے درپے ہورہے ہیں تو اس کیلئے کونسلنگ پر توجہ دینی چاہئے نصاب کے ذریعے اسے روکا جاسکتا ہے،
بچوں سمیت بڑوں کی تربیت کے لیے ادارے بنانے کی ضرورت ہے ،کسی چیزپر پابندی لگاکر منفی رجحان کو روکنا ممکن نہیں بلکہ سارا دارومدار تربیت پر ہوتا ہے جبکہ کرپشن سے معاشرے کو بچانے کے لیے سب سے بڑا فورم پارلیمان ہے ،جہاں قانون سازی اور اداروں کومضبوط ،غیر جانبدار بناکر کام لیا جاسکتا ہے تب جاکر معاشرے سے کرپشن بدعنوانی کو ختم کیاجاسکتا ہے۔
امید ہے کہ پارلیمان اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے عوام کی بھلائی اور معاشرے کی بہتری کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے گروہی وذاتی مفادات سے بالاترہوکر سوچے گی۔