سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے اعلان کردہ اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا نوٹی فکیشن اور ٹی او آرز جاری کردئیے گئے ہیں۔ ٹی او آرز میں استفسار کیا گیا ہے کہ میٹ ڈیپارٹمنٹ کی موسمیاتی وارننگ کے باوجود جوائنٹ ایکشن پلان کیوں نہیں تیار کیا گیا؟ اور کیا تمام سیاحوں کیلئے ایڈوائزری جاری کی گئی تھی یا کوئی وارننگ دی گئی تھی؟ٹی او آرز کے تحت تحقیقاتی کمیٹی یہ بھی معلوم کرے گی کہ مری کی ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ؟
کیا گاڑیوں کی تعداد کو گنا گیا اورجب گاڑیاں بڑھ گئیں تو ان کو روکا کیوں نہیں گیا ؟تحقیقاتی کمیٹی یہ بھی جاننے کی کوشش کرے گی کہ کیا کرائسز کے لیے پلان ترتیب دیا گیا تھا؟کیا کوئی کنٹرول روم بنایا گیا تھا؟ اور کیا لوکل ہوٹلز اورگیسٹ ہاؤسزکے ساتھ ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے رابطہ قائم کیا گیا؟اعلان کردہ اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی ٹی او آرز کے تحت یہ بھی دریافت کرے گی کہ ریسکیو آپریشن کتنی حد تک کامیاب رہا ؟ کتنی گاڑیوں کو نکالا گیا؟ اور کرائسز میں کیا کمی اور کوتاہیاں کن کن افسران کی جانب سے کی گئیں؟ تحقیقاتی کمیٹی آئندہ سات روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
دوسری جانب حکومت پنجاب کو سانحہ مری کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی گئی ہے۔صوبائی حکومت کو پیش کردہ رپورٹ کے تحت مری اورگردو نواح میں موجود سڑکوں کی گزشتہ دو برسوں میں جامع مرمت نہیں کی گئی جبکہ گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ بنی۔رپورٹ کے تحت مری میں موجود ایک نجی کیفے کے باہرپھسلن ہونے کے باوجود حکومتی مشینری موجود نہیں تھی اور پھسلن والے اس مقام پرمری سے نکلنے والوں کا مرکزی خارجی راستہ تھا۔صوبائی حکومت کو پیش کی جانے والی ابتدائی تحقیقات رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خارجی راستے سے برف ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی جبکہ بجلی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹلوں کو چھوڑ کرگاڑیوں میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔رپورٹ کے تحت رات گئے ڈی سی راولپنڈی اور سی پی او کی مداخلت پر مری میں گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگائی گئی لیکن ٹریفک بند ہونیکی وجہ سے برف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیورز بھی بروقت موقع پرنہ پہنچ سکے۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر اورڈی ایس پی ٹریفک کی روانی یقینی بنانے کے لیے موقع پرموجود تھے لیکن مری میں ایسا کوئی پارکنگ پلازہ موجود نہیں ہے جہاں گاڑیاں پارک کی جا سکتیں۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ صبح 8 بجے برف کا طوفان تھمنے کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مزید تحقیقات کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔مری سانحہ میں جو جانی نقصانات ہوئے ان کاازالہ تو ممکن نہیں مگر جس طرح سے ابتدائی رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے ہمارے نظام کا نقشہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے کس حد تک ہمارے پاس وسائل اور انتظامات موجود ہیں۔ یہ بات روزدہرائی جاتی ہے کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے سرمایہ کاری کررہے ہیں سیاحتی مقامات میں تفریح کیلئے آنے والے سیاحوں کوہر طرح کی سہولیات مہیا کی جائینگی مگر ان تمام تر دعوؤں کی قلعی حالیہ سانحہ مری نے کھول دی ہے۔ بہرحال ابتدائی رپورٹ آنے کے بعد کس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی ،جن کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں تو پورا نظام ذمہ دار ہے کیونکہ ہنگامی حالات اور اس طرح کی سنگین نوعیت پیدا ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں تو محض انتظامیہ ہی نہیں صوبائی حکومت پر بھی ذمہ دار عائدہوتی ہے جسے بروقت اور ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے ہوتے ہیںجونہیں کئے گئے۔