|

وقتِ اشاعت :   July 2 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان کے صوبائی وزراء اراکین اسمبلی مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں اور سی پی این ای کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے باوجود صوبے کو این ایف سی، گوادر پورٹ،سیندک گیس رائلٹی سمیت دیگر شعبوں میں حقوق نہیں دیئے جارہے وفاقی حکومت جس طرح دوسرے صوبوں میں موٹروے، میٹرو بس سروس اوردوسرے منصوبے شروع کررہی ہے اس ترقی میں بھی بلوچستان کو نظرانداز کیاجارہاہے، حقوق کے حصول کیلئے تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھیں گی ہم وفاقی اکائیوں پر یقین رکھتے اورپاکستان کوخوشحال دیکھنا چاہتے ہیں پاکستان کا استحکام تمام اکائیوں کی برابری کے حقوق میں مضمر ہے میڈیا اس حوالے سے اپنا کردارادا کرے اور بلوچستان کے مسائل کو اجاگرکیاجائے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں سی پی این ای کے زیراہتمام یو این ڈی پی کے تعاون سے صحافیوں کی دوروزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران کیا،صوبائی وزیر اطلاعات قانون وپارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ کوئٹہ اور صوبے کے مسائل کی باتیں پنجاب میں ہونی چاہئیں پنجاب کے اخبارات میں بلوچستان کے مسائل کو اجاگر نہیں کیاجاتا جہاں تک صوبائی خودمختاری کی بات ہے توہم اس بات پر قائم ہیں کہ قوموں کے حقوق ہیں جن پر زبانوں کی بنیاد پر قدغن نہیں لگانا چاہئے، پاکستان ایک وفاق ہے اس کی اکائیاں ہیں لیکن آج تک سارا زور اس بات پر دیاگیا ہے کہ پنجاب کو صنعتی زون بنایاجائے بلوچستان میں صنعت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو گیس تھی اس سے پنجاب کے کارخانے چل رہے ہیں روٹی پکانے کیلئے بھی گیس نہیں مل رہی ، انہوں نے کہ کہ18ویں ترمیم میں ہمیں جو کچھ ملا ہے ہم اس سے مطمئن نہیں ہیں ہم نے مزید ترامیم کرنی ہیں اگر یہی ترمیم1970ء میں کردیتے تو آج جو حالت ہے وہ نہ ہوتی ہم وفاقی اکائیوں پر یقین رکھتے ہیں اورپاکستان کو حقیقی فیڈریشن بنانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان اس وقت بحران سے گزررہاہے انہوں نے کہا کہ جس حکومت کی فیڈرل پی ایس ڈی پی میں15ارب روپے ہوں اور بجٹ خسارہ16ارب روپے ہوتو وہاں کیا ترقی ہوگی، انہوں نے کہاکہ این ایف سی کا فیصلہ نہیں ہوا آئیں سب ملکر اس پر بیٹھتے ہیں کوئٹہ میں پانی نہیں ہے چار سال بعد ایک گھونٹ بھی پانی نہیں ملے گا، انہوں نے کہاکہ امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے حکومت اپنا کام ذمہ داری سے کررہی ہے یہ کہنا غلط ہے کہ حکومت کے پاس اختیارات نہیں ہم چیزوں کو ٹھیک کرنے جارہے ہیں لیکن یہ صرف ایک رات میں ٹھیک نہیں ہوسکتیں، صوبائی حکومت نے فورسز کو ہدایت دی ہے کہ ہمیں امن چاہئے، صوبائی حکومت کے ترجمان جان محمد بلیدی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد بعض چیزیں جو مرکز کے پاس نہیں ہونی چاہئے تھیں اب بھی ہیں18ویں ترمیم کو تمام سیاسی جماعتوں نے غور سے دیکھا ہے ایک سو سے زائد شقوں میں ترمیم کی گئی ہے ہم قانون بنائیں گے اور اس پر عملدرآمد کرائیں گے18ویں ترمیم بڑی جدوجہد کے بعد عمل میں آئی ہے انہوں نے کہاکہ اس وقت بعض اداروں کی مداخلت موجود ہے لیکن جوں جوں جمہوریت آگے بڑھے گی تویہ مداخلت ختم ہوجائے گی، این ایف سی کامعاہدہ منصفانہ نہیں ہے اسکی تقسیم بہترکرنے کی ضرورت ہے اور آبادی کی نسبت سے غربت اورپیداوار کو مدنظر رکھنا ہوگا، انہوں نے کہاکہ مضبوط پاکستان کا فارمولہ اسی میں ہے کہ جمہوریت کو مضبوط اور وحدتوں کو اختیار دیئے جائیں، انہوں نے کہاکہ اس وقت میڈیا کا کردار بڑا اہم ہے یہ مسائل کو اجاگرکرسکتاہے اورحکومت صحافیوں کے ساتھ ہے، بی این پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ نے کہاکہ میڈیا پر اعتراض تو ہے لیکن جن صحافیوں نے صوبے کے نامساعدحالات میں قربانیاں دی ہیں انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ مشرف رجیم کے بعد اب تک بلوچستان کی معاشی صورتحال پر اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے18ویں ترمیم ہو یا دوسرے قوانین ہوں ان پر عملدرآمد نہیں کیاگیا،18ویں ترمیم کے بعد صوبے کا چیف ایگزیکٹو اس بات کا پابند ہے کہ صوبے کے حقوق دلائے نوجوانوں کو ملازمتیں دے انہوں نے کہاکہ اگر میڈیا بلوچستان کے حالات کو اجاگرکرتا تو آج اتنا بڑا سیاسی بحران نہیں ہوتا آج فورسز زیادہ بااختیار ہیں بلوچستان کے وسائل گوادر میگاپروجیکٹ اقتصادی روٹ اور گوادر کی مقامی آبادی کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا آج صوبے میں آپریشن کئے جارہے ہیں اقوام کے حقوق تسلیم نہیں کئے جارہے بلوچستان کے معاملات کو سیاسی معاشی اور اقتصادی طورپر دیکھنا چاہئے جس کیلئے مرکز کواپنا مائنڈسیٹ تبدیل کرناہوگا، عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر انجینئرزمرک خان نے کہا کہ نیب کے دور میں ہم صوبائی خودمختاری کی بات کرتے تھے توہمیں غدار کہاجاتا ہے اگر18ویں ترمیم30 سال پہلے لے آتے تو ہم پر یہ الزامات نہ لگتے صوبائی خودمختاری کیلئے پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کااہم رول ہے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے35ویں ترمیم بھی لائیں گے انہوں نے کہا کہ پنجاب بڑا بھائی ہے لیکن اگر وہ این ایف سی یا دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے گا تو اسے یہ پالیسی تبدیل کرنی ہوگی گوادر پورٹ سیندک ریکوڈک اور گیس کے مسائل حل نہیں ہوئے بلوچستان میں اپوزیشن کوکوئی نہیں پوچھتا ہم حکومت سے بھی اپنے حقوق کیلئے لڑیں گے،جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے صوبائی امیر مولانا عبدالقادرلونی نے کہاکہ18ویں ترمیم کے تحت جو حقوق ملے ہیں ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیاجارہاہے اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہم نے احتجاج کیا سات وفاقی سیکرٹریوں میں سے ایک بھی بلوچستانی نہیں ہے میڈیا اگر مسائل کو اجاگر کرے تو بہتری آسکتی ہے لیکن ہم میڈیا سے مایوس ہیں سب سے پہلے میڈیا زیادتی بند کرے پھر ہم سب ملکر وفاق سے حقوق کیلئے جدوجہد کریں گے، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخونزادہ نے کہاکہ18ویں ترمیم کے بعد بھی ہمارے کلچر میں تبدیلی نہیں آئی غربت ہے معاشی بدحالی ہے کرپشن بڑھ رہی ہے بلوچستان میں پہلی مرتبہ کم وزیر لئے گئے لیکن کیا کرپشن پر فرق پڑا ہے بلوچستان آج کے حالات میں زیادہ توجہ کا مستحق ہے کوئٹہ میں میٹروبس نہیں پینے کا پانی نہیں غربت اور تعلیم کے ایشوز ہیں جس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کلچر تبدیل اور ملکر جدوجہد کرنی ہوگی، سی پی این ای کے سیکرٹری ڈاکٹر عبدالجبار خٹک نے کہاکہ18 ویں ترمیم کے بعد کچھ چیزیں صوبوں کو منتقل نہیں ہوئیں جس پر ہم نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی سیمینار کئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ صوبائی خودمختاری کے دشمن ہیں1973ء کے آئین کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ عوام کے سیاسی آئینی حقوق سلب کردیئے گئے، انہوں نے کہاکہ1973ء کا آئین جنرل حمید سے نہیں ملا یہ عوام کی جدوجہد سے ملا ہے، اب18ویں ترمیم کے خلاف بھی سازشیں ہورہی ہیں عوام اور تمام سیاسی جماعتیں ملکر اس کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں گی، قبل ازیں سی پی این ای کے شیراز،عارف بلوچ، سینئر صحافیوں واجہ سلمان،شہزادہ ذوالفقار، انور ساجدی اوردیگر نے اس بات پر زوردیا کہ صحافیوں میڈیا مالکان کیمرہ مینوں کی تربیت بہت ضروری ہے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں رپورٹنگ کرسکیں مقررین نے کہاکہ اخبارات میں ایڈیٹر کا پہلے جیسا رول ہونا چاہئے تاکہ وہ ہر خبر کا خودجائزہ لے سکے، منیجرفیصلہ سازی نہ کریں آج کل میڈیا پر نان پروفیشنل لوگ چھائے ہوئے ہیں پروفیشنل لوگ ہی حقیقی صحافت کے ذریعے اپنا بہتر کرداراداکرسکتے ہیں ورکشاپ کے دوران صحافیوں اور سی پی این ای کے نمائندوں نے ایک دوسرے سوالات بھی کئے۔