لاہور: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہگوادر میں700ارب روپے خرچ کر رہے ہیں اور بلوچستان کو اب تک کبھی اتنا بڑا پیکج نہیں ملا ،نیا میکنزم بنا رہے ہیں اور چھ ماہ میں گوادر کے بنیادی مسائل حل ہوں گے۔آپ نے اتنا بڑا قرضہ بھی لیا ہو اورباہر سے بیٹھ کر آرٹیکل بھیجنا شروع کر دیں اور معیشت پر لیکچر دیں یہ اخلاقی طو رپر کیسے درست ہے ۔
عمران خان کے علاوہ کوئی قومی لیڈر نہیں ہے ، انتخابات آئیں گے میدان بھی ہوگا او رگھوڑا بھی ہوگا ، ہم 2023 تک یہیں ہیں اور انشا اللہ اگلے پانچ سال بھی کہیں نہیں جارہے،پیپلزپارٹی اندرون سندھ ،مسلم لیگ (ن) وسطی پنجاب اور جے یو آئی (ف) خیبر پختوانخواہ کے چند علاقوںکی جماعت ہے ،تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس کا پورے ملک میں ہر جگہ ووٹ ہے ، تحریک انصاف کے سوا کوئی بھی جماعت قومی و صوبائی حلقوں کی 11 نشستوں پر امیدوارکھڑے کرنے کے قابل نہیں ہے ،1947سے2008ء تک پاکستان کا قرضہ 6ہزار ارب روپے تھا جبکہ صرف 2008سے2018ء تک 23ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا ،ہم نے پانچ سالوں میں55ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے اور حکومت 32ارب ڈالر واپس کر چکی ہے ، ملک کے موجودہ حالات اور نواز شریف کا کیسے براہ راست تعلق نہیں ہے ۔
اس لئے نواز شریف کا واپس آنا اہم ہے ،آپ لندن میں کیا کر رہے ہیں جو سب سے مہنگی پراپرٹی میں بیٹھے ہوئے ہیں ، زرداری لندن جاتے ہیں تو مہنگے ترین ہوٹل کا پورا اپارٹمنٹ بک ہو جاتا ہے ، جب دبئی جاتے ہیں وہاں بھی ایسا ہوتا ہے ، ان چیزوں کو کیسے نظر انداز کردیں ، جو لوگ مہنگائی کی وجہ ہیںانہیںکیسے چھوڑ دیں ،جب نجی شعبہ صحت اور تعلیم کے شعبے میںنہیں آئے گا تو اتنی بڑی آبادی کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو سکتے،قومی صحت کارڈ سے سفید پوش طبقہ سب سے زیادہ مستفید ہوگا ،تمام صحافیوں کو صحت کارڈ دینے جارہے ہیں ،میڈیا ہائوسز مالکان نے بھی 33سے40فیصد منافع کمایا ، مالکان خدا کیلئے اپنے ورکرز کابھی خیال کریں اوران کی تنخواہیں بڑھائیں۔ ان خیالات کا اظہارانہوںنے لاہور پریس کلب میں صحافیوں کیلئے قومی صحت کارڈ دینے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر ’’ میٹ دی پریس ‘‘ پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔اس موقع پر پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری، سیکرٹری عبد المجید ساجد سمیت دیگر عہدیدار بھی موجود تھے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ فوٹوگرافر ، رپورٹرز ، سب ایڈیٹر ز ، ایڈیٹرز او ران کے خاندانوںکی صحت کا خرچہ اب حکومت نے اپنے ذمے لے لیا ہے اور انہیں صحت کارڈ سے اسٹیٹ آف دی آرٹ صحت کی سہولتیں میسر ہوں گی ، صحت کارڈ کے ذریعے ہر فیملی کو دس لاکھ روپے تک علاج کی سہولتیں میسر ہوں گی جو وہ پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں سے حاصل کرسکیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہا گیا کہ اس سے نجی ہسپتال پیسہ بنائیں گے توسوال یہ ہے کہ جب پرائیویٹ سیکٹرصحت کے شعبے میں نہیں آئے گا،تعلیم میںنہیں آئے گا تواتنی بڑی آبادی کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو سکتے۔ پرائیویٹ سیکٹر جو صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے وہ آئے اور سرمایہ کاری کرے اور صحت کی سہولتوں کو بڑھائے ۔انہوںنے کہا کہ سندھ حکومت جتنا خرچ کر رہی ہے اگر وہ قومی صحت کارڈ میں شامل ہوتی تو اس سے آدھا خرچ ہوتا ہے ، لیکن وہ وہاں عمارتیں بنانے پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں،ایک ایم ایس کی تنخواہ لاکھوں روپے میں رکھ دی گئی ہے ۔
اس سے وہاں صحت کا نظام بیٹھ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قومی صحت کارڈ سے کوئی بھی استفادہ کر سکتاہے ،اس میں امیر ترین لوگ ،سفید پوش،مڈل کلاس او ر غریب لوگ بھی شامل ہیں،امیر اور غریب کوعلاج کی ایک جیسی سہولتیں میسر ہوں گی،بہت سے امیر لوگ ہیں جوعلاج پاکستان میں نہیں کرائیں گے اور وہ باہر چلے جاتے ہیں، مڈل کلاس ،تنخواہ دار سفید پوش طبقہ جو علاج کے لئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے اور علاج بھی اہم ہے انہیں اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ لاہور کے بعد اسلام آباد کے تمام صحافیوں اور پھر پاکستان کے تمام پریس کلبز کے صحافیوں کو یہ سہولت دینے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں میڈیا کے توسط سے سندھ حکومت سے کہنا چاہتا ہوں وہ بھی مہربانی کرے اور اس میں اپنا حصہ ڈالے تاکہ سندھ کی عوام کو بھی علاج معالجے کی سہولیات میسر آ سکیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے وزیر اعظم کے کم آمدنی والے لوگوں کیلئے گھروں کے منصوبے میں صحافیوں کو بھی شامل کر الیا ہے اور اب تمام صحافی جو پریس کلب کے پاس رجسٹرڈ ہوں گے وہ اس ہائوسنگ سکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، پانچ مرلے کے گھر کے لئے 27لاکھ روپے کا قرضہ انتہائی کم شرح سود پر دیا جارہا ہے جبکہ 3لاکھ روپے حکومت دے رہی ہے اوریہ مجموعی طو رپر 30لاکھ روپے بنتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ لاہور پریس کلب پاکستان کا سب سے خوبصورت پریس کلب ہے اورمیری اس کے ساتھ بڑی یادیں وابستہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ پرنٹ میڈیا کو اب ڈیجیٹلائزیشن کی طرف آنا پڑے گا ،جب انٹر نیٹ کی رفتارمزید بڑھے گی تو ڈیجیٹل میڈیا پرنٹ میڈیا کو ٹیک اوور کر لے گا، تین سال میں 12ارب روپے کے اشتہارات روایتی میڈیا سے ڈیجیٹل میڈیا کو منتقل ہو گئے ہیں ۔جب فائیو جی آ جائے گا تو ڈیڑھ گھنٹہ کی فلم ساڑھے تین سیکنڈ میں ڈائون لوڈ ہو جائے گی ۔
ہمیں اس تبدیلی اور انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیے ۔ہم نے کراچی میں صحافیوںکو ڈیجیٹل لیب بنا کر ددی ہے اور اس کے بعد لاہور پریس کے صحافیوں کو بنا کر دیں گے جہاں پر تمام سہولتوںکے ساتھ تربیت کے مواقع بھی میسر ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے کیمرہ مین کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ان کی سات سات سال سے تنخواہیں نہیں بڑھیں ۔ سٹاک ایکسچینج میں 100بڑی کمپنیوںنے 929ارب کا منافع کمایا ہے ،میڈیا ہائوسز نے بھی 33سے40فیصد منافع کمایا ، مالکان خدا کیلئے اپنے ورکرز کابھی خیال کریں اوران کی تنخواہیں بڑھائیں۔انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دورمیں کسان خوشحال ہو ا ہے اور1100ارب روپے اضافی کسانوںکے گھروں میں گئے ہیں، ملک میں گروتھ سائیکل آیا ہوا ہے، ہماری معیشت کی 5فیصد پر گروتھ ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقہ مشکل میں ہے اور جب تک پرائیویٹ سیکٹر حصہ نہیں ڈالے گا یہ مشکلات کم نہیں ہو سکتیں ۔ میڈیا میں اوپر کے لوگوں کی تنخواہ بڑھا دی جاتی ہے ،ورکنگ جرنلسٹ کی تنخواہ بھی بڑھائیں ،کیمرہ مین اوررپورٹرکا خیال کریں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نئی اصلاحات لے کر آنا چارہے ہیں ، ہم ٹربیونل میں الیکٹرانک میڈیا کے ورکرزکو بھی حق دے رہے ہیں اگر ان کا کنٹریکٹ پورا نہیں ہوتا تو وہ بھی عدالت کیس دائر کر سکتے ہیں،ورکنگ جرنلسٹ کا خوشحال ہونا ضروری ہے ،صحافیوں کی تنظیمیں مالکان کے حقوق کی تو بات کرتی ہیں ان کے لئے تو پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے پہنچ جاتی ہیں لیکن ورکرز کے لئے بات نہیں کرتیں ۔فواد چوہدری نے کہا کہ برطانیہ میں وزیر اعظم بورس جانسن نے لاک ڈائون لگایا کہ لوگ کورونا کے میں گھروںمیں رہیں گے لیکن وزیر اعظم خود پارٹیاں اٹینڈ کرتے رہے جس پر اتنی بڑی بحث شروع ہو گئی ہے کہ ان کی کرسی خطرے میں پڑ گئی ہے لیکن ہمارے میڈیا میں ایک ٹی وی نے اسحاق ڈار کو لیا ہوا تھا ، ایک بڑے اخبارمیں ان کا آرٹیکل چھپا ہوا ہے ،یہاں تو ایسا لگتا ہے ہمیں فکر فاقہ ہی نہیں ہے ،وہ لوگ جو پاکستان کے عدالتی نظام سے بھاگ جائیں ،پاکستان سے پیسے چوری کر کے بھاگیں،کوئی اخلاقی جوازہے کہ وہ ہمیں معیشت پر لیکچر دیں اور عوام ان کو سننا شروع کر دیں۔
سیاسی بحث کو میچور کرنے کی ضرورت ہے ۔ پرویز خٹک اورحماد اظہر میں بات ہوئی ، پرویز خٹک حلقے کی سیاست کرتے ہیں،انہوں نے حماد اظہر سے کہا کہ گیس کی سکیمیں دیں اور مکمل کریں ۔یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک وزیر گیس کومانگ رہا اور وزیر پیٹرولیم کیوں نہیں دے پارہے ۔پیپلز پارٹی نے درست فیصلہ کیا کہ گیس کی سکیمیں روک دیں،لیکن مسلم لیگ (ن) نے انتخابات جیتنے کے لئے سکیمیں دیدیں،جب پیپلزپارٹی نے حکومت چھوڑی تو ایک روپے کا سرکلر ڈیٹ نہیں تھالیکن جب شاہد خاقان عباسی وزیر تھے تو 157ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ چھوڑ کر چلے گئے ،سکیمیں اتنی پھیلائیں کہ انہیں مکمل کرنے کے لئے ہر سال 90ارب روپے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا یہ دکھاتا ہے لٹ گئے مر گئے برباد ہو گئے کیونکہ یہی بکتا ہے ،اگر وہ اچھا دکھائیں تو ریٹنگ نہیں آئے گی ، اس سے بحث کا معیار متاثر ہو رہا ہے ہمیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے،چند لوگوں کا خیال ہے مہنگائی سے عمران خان کی مقبولیت متاثر ہوئی، ملک میں 1100نشستوں پر انتخاب ہونا ہے اور تحریک انصاف کے علاوہ کوئی اور جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں امیدوار کھڑے کر سکے ۔پیپلزپارٹی اندرون سندھ ،(ن)لیگ وسطی پنجاب اور جے یو آئی (ف) خیبر پختوانخواہ کے چند علاقوں کی جماعت ہے جبکہ تحریک انصاف پورے ملک کی جماعت ہے اور امیدوار کھڑے کر سکتی ہے ، ہمارا ووٹ خیبر، کراچی، کوئٹہ اور لاہور میںبھی ہے ،ملک میںعمران خان کے علاوہ کوئی قومی لیڈر نہیں ، انتخابات آئیں گے میدان بھی ہوگا او رگھوڑا بھی ہوگا ، ہم 2023 تک یہیں ہیں اور انشا اللہ اگلے پانچ سال بھی کہیں نہیں جارہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چارہے تھے کہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل میں ایک پورامیڈیا ٹربیونل کا سیٹ اپ بنائیں گے تاکہ ٹربیونل کے تحت سات بڑے شہروں میں مستقل ججز تعینات کئے جا سکیں ، لیکن کسی نے بل پڑھا نہیں اورمخالفت شروع کر دی گئی اور اس میںتاخیر ہو گئی ، اسی وجہ سے ججز کی تعیناتی تاخیر کا شکار ہوئی، اب پراسیس جلد مکمل ہو گا اور ٹربیونل کام شروع کر دے گا ۔انہوں نے کہا کہ ہم قانون کے مطابق چلتے ہیں، ہم یہ قانون لے کر آئے تھے کہ جو مالکان تنخواہوں کی ادائیگی نہ کریں ان کے اشتہار بند کر دیں لیکن پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے مخالفت کی اورقانون پاس نہیں ہو سکا، ہم قانون لا رہے ہیں ، صحافی پیپلز پارٹی اور (ن)سے بات کریں تاکہ یہ قانون پاس ہو ، صحافیوں کی پروٹیکشن کا بل آیا ہے اور اس میں بھی شک ڈالنے کی کوشش کی گئی،جب تک قانون نہیں بنے گا ہم اشتہار بند نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ جس صحافی کی پریس کلب گارنٹی دے گا ہم اس صحافی کو ڈیجیٹل میڈیا کے لئے پانچ لاکھ روپے تک کا قرض دیں گے ۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختوانخواہ نے صحت کارڈ میں لیور اور کڈنی ٹرانسپلانٹ کو بھی شامل کیا ہے ، پنجاب میں ابھی ابتداء ہے یہاں بھی مزید توسیع ہو تی جائے گی ۔انہوں نے کہا کہ 1947سے2008ء تک پاکستان کا قرضہ 6ہزار ارب روپے تھا جس میں ہم نے فوج کو بھی کھڑا کر لیا ،نیوی ائیر فورس کھڑی کی ،گوادر شہر ،اسلام آباد،موٹرویز بنیں جبکہ ہم ایٹمی ملک بھی بن گئے لیکن صرف 2008سے2018ء تک 23ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا ۔ہم نے پانچ سالوں میں55ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے اور حکومت 32ارب ڈالر واپس کر چکی ہے ۔
ملک کے موجودہ حالات اور نواز شریف کا براہ راست تعلق کیسے نہیں ہے ،اس لئے نواز شریف کا واپس آنا اہم ہے ۔آپ لندن میں کیا کر رہے ہیں جو لندن میںسب سے مہنگی پراپرٹی میں بیٹھے ہوئے ہیں اور پورا خاندان قطار بنا کر نکل گیا ، زرداری لندن جاتے ہیں تو مہنگے ترین ہوٹل کا پورا اپارٹمنٹ بک ہو جاتا ہے ، جب دبئی جاتے ہیں وہاں بھی ایسا ہوتا ہے ، ان چیزوں کو کیسے نظر انداز کردیں ، جو لوگ مہنگائی کی وجہ ہیںانہیںکیسے چھوڑ دیں ۔انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ گوادر میں700ارب روپے خرچ کر رہے ہیں اور بلوچستان کو اب تک کبھی اتنا بڑا پیکج نہیں ملا ،نیا میکنزم بنا رہے ہیں اور چھ ماہ میں گوادر کے بنیادی مسائل حل ہوں گے۔آپ نے اتنا بڑا قرضہ بھی لیا ہو اورباہر سے بیٹھ کر آرٹیکل بھیجنا شروع کر دیں اور معیشت پر لیکچر دیں یہ اخلاقی طو رپر کیسے درست ہے ۔