استحکام وعدم استحکام کامعاملہ خطے میں موجود ہے مگر اس کا مقابلہ اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب اندرون خانہ ملک میں سیاسی استحکام موجود ہو مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھاگیا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ جاری ہے اب تو اس میں مزید شدت آرہی ہے اس قدر معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کا فائدہ یقینا ملک اورعوام کو نہیں ہے بحرانات مزید سنگین شکل اختیار کرینگے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن پر کرپشن کے کیسز ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے اور پھر فیصلہ عدلیہ پر چھوڑدیاجائے جبکہ اپوزیشن کیسز کاسامنا کرے اگر وہ مقدمات کو الزامات سمجھتی ہے تو قانونی طریقہ اختیار کرے البتہ جنگی ماحول جیسی صورتحال کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے عوام کی لائیوکال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کو میں اپوزیشن لیڈر نہیں قوم کا مجرم سمجھتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اگر میں اپوزیشن لیڈر سے ملتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ انہوں نے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ شہبازشریف ڈیڑھ گھنٹے تقریر کرتے ہیں لیکن کرپشن کا جواب نہیں دیتے۔ شہبازشریف کی تقریر اصل میں نوکری کی درخواست ہوتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہماری حکومت یہ ٹرم اور اگلا ٹرم بھی پورا کرے گی۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سے نکل گیا تو اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرنا ک ہوجاؤں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سڑکوں پر نکل آیا تو اپوزیشن کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شہبازشریف جواب نہیں دے سکے کہ مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں پیسے کہاں سے آئے؟ ان کا کہنا تھا کہ جب ان سے سوال پوچھا جائے تو کہتے ہیں بچے باہر ہیں، ان سے پوچھیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ معاشرہ ایٹم بم سے نہیں اخلاقیات تباہ ہونے سے خراب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹرز لینڈ میں انصاف 100 فیصد ہے جب کہ مسلم ممالک میں 9 سے 10 فیصد ہے۔دوسری جانب مریم نواز نے وزیراعظم کی جانب سے لائیو کالز کے دوران دیے جانے والے جوابات کے ردعمل میں کہا کہ آپ کی دھمکیاں کہ اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہوجاؤں گا، گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں ۔مریم نواز نے کہاکہ ن لیگ والوں کے خلاف بنائے گئے مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی حقیقت دنیا کے سامنے آگئی ہے،عدلیہ پر الزام نہ لگائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس صرف آپ کا انتقام اور انتقام ہے، جس دن اقتدار سے نکلے، عوام شکرانے کے نوافل پڑھیں گے۔یہ تو یقینی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا ردعمل دینگی جس کا سلسلہ گزشتہ چند سالوں سے چلتا آرہا ہے بدقسمتی سے اس سیاسی جنگ کے دوران قومی اداروں کو بھی گھسیٹاگیاجب سیاسی کشیدگی برقرار رہے اداروں کو درمیان میں لایاجائے تو پھر ملک میں نظام کس طرح صحیح کام کرے گا، اداروں کو دباؤ میں لانے کاالزام دونوں اطراف سے جاری ہے جبکہ اداروں کے سربراہان یہی کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال اس سچ کو کسی طورر د نہیں کیاجاسکتا کہ ملک کے بعض اداروں کوسیاسی ہتھیار کے طور پر انہی سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا اور نتیجہ یہی نکلا کہ مکافات عمل کا شکار ہوئے۔ اگر اب بھی اسی طرح سیاسی جنگ جاری رہے گی، ملک کے اہم مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی تو بحرانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ مزید گھمبیر شکل اختیار کرے گا جوکہ ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔