|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2022

استحکام وعدم استحکام کامعاملہ خطے میں موجود ہے مگر اس کا مقابلہ اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب اندرون خانہ ملک میں سیاسی استحکام موجود ہو مگر گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ دیکھاگیا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ جاری ہے اب تو اس میں مزید شدت آرہی ہے اس قدر معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے اس کا فائدہ یقینا ملک اورعوام کو نہیں ہے بحرانات مزید سنگین شکل اختیار کرینگے حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جن پر کرپشن کے کیسز ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے اور پھر فیصلہ عدلیہ پر چھوڑدیاجائے جبکہ اپوزیشن کیسز کاسامنا کرے اگر وہ مقدمات کو الزامات سمجھتی ہے تو قانونی طریقہ اختیار کرے البتہ جنگی ماحول جیسی صورتحال کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے عوام کی لائیوکال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہبازشریف کو میں اپوزیشن لیڈر نہیں قوم کا مجرم سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اگر میں اپوزیشن لیڈر سے ملتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے کوئی جرم نہیں کیا۔ انہوں نے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں کہا کہ شہبازشریف ڈیڑھ گھنٹے تقریر کرتے ہیں لیکن کرپشن کا جواب نہیں دیتے۔ شہبازشریف کی تقریر اصل میں نوکری کی درخواست ہوتی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہماری حکومت یہ ٹرم اور اگلا ٹرم بھی پورا کرے گی۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سے نکل گیا تو اپوزیشن کے لیے زیادہ خطرنا ک ہوجاؤں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سڑکوں پر نکل آیا تو اپوزیشن کے لیے چھپنے کی جگہ نہیں ہوگی۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ شہبازشریف جواب نہیں دے سکے کہ مقصود چپڑاسی کے اکاؤنٹ میں پیسے کہاں سے آئے؟ ان کا کہنا تھا کہ جب ان سے سوال پوچھا جائے تو کہتے ہیں بچے باہر ہیں، ان سے پوچھیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ معاشرہ ایٹم بم سے نہیں اخلاقیات تباہ ہونے سے خراب ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹرز لینڈ میں انصاف 100 فیصد ہے جب کہ مسلم ممالک میں 9 سے 10 فیصد ہے۔دوسری جانب مریم نواز نے وزیراعظم کی جانب سے لائیو کالز کے دوران دیے جانے والے جوابات کے ردعمل میں کہا کہ آپ کی دھمکیاں کہ اقتدار سے نکالا گیا تو مزید خطرناک ہوجاؤں گا، گیدڑ بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں ۔مریم نواز نے کہاکہ ن لیگ والوں کے خلاف بنائے گئے مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی حقیقت دنیا کے سامنے آگئی ہے،عدلیہ پر الزام نہ لگائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس صرف آپ کا انتقام اور انتقام ہے، جس دن اقتدار سے نکلے، عوام شکرانے کے نوافل پڑھیں گے۔یہ تو یقینی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنا ردعمل دینگی جس کا سلسلہ گزشتہ چند سالوں سے چلتا آرہا ہے بدقسمتی سے اس سیاسی جنگ کے دوران قومی اداروں کو بھی گھسیٹاگیاجب سیاسی کشیدگی برقرار رہے اداروں کو درمیان میں لایاجائے تو پھر ملک میں نظام کس طرح صحیح کام کرے گا، اداروں کو دباؤ میں لانے کاالزام دونوں اطراف سے جاری ہے جبکہ اداروں کے سربراہان یہی کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بہرحال اس سچ کو کسی طورر د نہیں کیاجاسکتا کہ ملک کے بعض اداروں کوسیاسی ہتھیار کے طور پر انہی سیاسی جماعتوں نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا اور نتیجہ یہی نکلا کہ مکافات عمل کا شکار ہوئے۔ اگر اب بھی اسی طرح سیاسی جنگ جاری رہے گی، ملک کے اہم مسائل پر توجہ نہیں دی جائے گی تو بحرانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ مزید گھمبیر شکل اختیار کرے گا جوکہ ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔