متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے حوثیوں کی جانب سے فائر کیے گئے 2 بیلسٹک میزائلوں کو گرنے سے قبل تباہ کر دیا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ کے مطابق تازہ واقعہ متحدہ عرب امارات پر حوثی باغیوں کے مشتبہ ڈرون حملے کے ایک ہفتے بعد پیش آیا ہے جس کے نتیجے میں ایک پاکستانی شہری سمیت 3 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حوثی 6 سال سے زائد عرصے سے سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد سے لڑ رہے ہیں جس میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔
حوثی بار بار سعودی عرب پر سرحد پار سے میزائل اور ڈرون حملے کر رہے ہیں اور 17 جنوری کو متحدہ عرب امارات پر ایک غیر معمولی حملہ بھی کیا۔
اماراتی وزارت دفاع نے کہا کہ تباہ کیے گئے بیلسٹک میزائلوں کی باقیات ابوظبی کے ارد گرد الگ الگ علاقوں میں گریں۔
وزارت دفاع نے مزید بتایا کہ وہ تمام حملوں کے خلاف ضروری حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے اخبار ’دی نیشنل‘ نے شہریوں کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی کہ صبح ساڑھے 4 بجے کے قریب دارالحکومت میں آسمان پر شعلے چمکتے دیکھے گئے۔
پیر کو ہونے والا یہ تازہ حملہ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر گزشتہ ہفتے کیے جانے والے حملے کے بعد دوسرا حملہ تھا جس میں ابوظبی میں ایندھن کے ڈپو کو نشانہ بنایا، حملے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب آگ لگ گئی تھی۔
حوثیوں کے زیر انتظام ’المسیرہ‘ ٹیلی ویژن نے کہا کہ وہ چند گھنٹوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے خلاف وسیع فوجی آپریشن کی تفصیلات کا اعلان کریں گے۔
دوسری جانب سعودی سرکاری میڈیا نے بتایا کہ عرب اتحاد نے ایک بیلسٹک میزائل کو روکا جس کی باقیات سے سعودی عرب کے جنوب میں ورکشاپوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔
اس سے قبل اتوار کی رات کو سرکاری میڈیا نے بتایا تھا کہ ایک بیلسٹک میزائل جنوب میں گرا، جس سے دو غیر ملکی زخمی ہوئے اور ایک صنعتی علاقے کو نقصان پہنچا۔
یمن کے حوثی باغیوں نے ابوظبی پر 2 بیلسٹک میزائل داغے جانے کے بعد متحدہ عرب امارات پر اپنے حملوں کو تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔
حوثیوں نے کہا کہ انہوں نے حملے میں ابوظبی کی الظفرہ ایئربیس اور دبئی میں موجود اہم اور مرکزی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔
حوثی باغیوں کے فوجی ترجمان یحییٰ ساری نے ایک ٹیلی ویژن بیان میں کہا کہ حملے کے مقاصد کمال درستگی کے ساتھ حاصل کیے گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم اب اگلے مرحلے میں اس آپریشن کو مزید وسعت دینے کے لیے تیار ہیں اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کا مقابلہ کریں گے۔
یمن کے تنازع کو بڑی حد تک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
امریکا کے ساتھ مل کر یمن میں جنگ بندی کے لیے جدوجہد میں سرگرم اقوام متحدہ نے کشیدگی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور دونوں فریقین سے صورتحال کو ممکنہ حد تک قابو میں رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ادھر عرب فوجی اتحاد نے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے تیز کر دیے ہیں۔
جمعہ کو شمالی صوبہ صعدہ میں ایک عارضی حراستی مرکز پر حملے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہوئے اور منگل کو ایک کارروائی میں حوثیوں کے زیر قبضہ دارالحکومت صنعا میں تقریباً 20 افراد مارے گئے۔
فوجی اتحاد نے مارچ 2015 میں یمن میں مداخلت کی تھی جب حوثیوں نے صنعا سے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو بے دخل کردیا تھا۔
حوثی باغیوں کے گروپ کا کہنا ہے کہ وہ کرپٹ نظام اور غیر ملکی جارحیت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات نے 2019 میں فوجی کشیدگی میں تعطل کے پیش نظر یمن میں اپنی موجودگی کو بڑی حد تک کم کر دیا تھا، لیکن اماراتی حمایت یافتہ یمنی افواج نے حال ہی میں یمن میں توانائی پیدا کرنے والے اہم صوبوں میں حوثیوں کے خلاف جنگ شروع کردی ہے۔