|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2022

سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2021 کی تازہ رپورٹ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔

اسلام آباد میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان 2020 میں دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 124ویں نمبر پر تھا، تازہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ ایک سال کے اندر ہم 140ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا کے 180 ممالک میں کرپشن کا جائزہ لیتا ہے، یہ ادارہ کسی کے ماتحت نہیں ہے، تمام ممالک کے معاملات کو دیکھ کر رپورٹ شائع کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی ملک کا ایک سال کے اندر 16 ممالک سے زیادہ کرپٹ ہو جانا نیا ریکارڈ ہے، جس سے پاکستانی عوام کو موجودہ حکومت کی کرپشن کا اندازہ ہوگیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ہر ایک پر چوری کا الزام لگاتے تھے لیکن آج پوری دنیا نے ان کی اپنی کرپشن پر مہر ثبت کردی ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ قومی سانحہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات کے معاملے میں پاکستان 152ویں نمبر پر ہے، یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک میں کوئی ترقیاتی پراجیکٹ موجود ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان کرپٹ ممالک کی فہرست میں 127ویں نمبر پر تھا اور جب پارٹی نے حکومت چھوڑی تو پاکستان 117ویں نمبر پر آچکا تھا، جبکہ تحریک انصاف کے 3 سالوں میں پاکستان 117 سے 140ویں نمبر پر پہنچ گیا۔

لیگی رہنما نے کہا کہ ملک میں آج جتنی بھی مہنگائی ہے اسی کرپشن کی وجہ سے ہے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں مہنگائی اور کرپشن کم ترین سطح پر تھی اور آج تحریک انصاف کی حکومت میں مہنگائی اور کرپشن رکارڈ سطح پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ جس شخص کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین کا لقب دیا وہ پاکستان کا کرپٹ ترین حکمران نکلا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی کابینہ میں کونسا آدمی ہے جو کرپٹ نہیں ہے؟ کوئی ایک ایسا آدمی نہیں ہے جو اپنی وزارت میں ناکام نہیں ہوا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپوزیشن کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ جب بھی ملک کو کوئی مشکل درپیش ہو تو اس کی وجوہات کی نشاندہی کریں اور عوام پر اس کے اثرات بیان کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ جب آپ حکومتی اہلکاروں کے تبادلے کرتے رہیں گے اور کرائے کے مشیر رکھیں گے تو یہ حکمت عملی بھی کرپشن کی وجہ بنے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں واضح ہے کہ کرپشن کی فہرست میں 120 سے 144 پر پہنچنے کی وجہ طرز حکمرانی ہے، دنیا الزام لگارہی ہے کہ آپ ایک کرپٹ حکومت ہیں اور کرپٹ ترین ہوتے جارہے ہیں، ہم سب کو افسوس ہے کہ آج ہمارا ملک دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی چیئرپرسن ناصرہ اقبال کا اس رپورٹ پر مختصر تبصرہ ضرور پڑھیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔

واضح رہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) برائے سال 2021 میں پاکستان 180 ممالک میں سے 140ویں درجے پر آگیا جبکہ گزشتہ برس پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 124ویں نمبر پر تھا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے کرپشن پرسیپشن انڈیکس (سی پی آئی) 2021 میں انکشاف کیا ہے کہ ‘قانون کی حکمرانی’ اور ریاست کی گرفت کی عدم موجودگی سے پاکستان کے سی پی آئی اسکور میں نمایاں تنزلی ہوئی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چیئرمین جسٹس (ر) ناصرہ اقبال نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سی پی آئی 2020 کے مقابلے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے سی پی آئی 2021 کے اسکور میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

’چیئرمین نیب اور شہزاد اکبر اپنے اثاثے بھی ظاہر کریں‘

سابق وزیراعظم نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ بتائے کہ آج تک کتنے اثاثے ریکور کیے؟ ایسٹ ریکوری یونٹ والوں کو اپنے اثاثے بھی ظاہر کرنے چاہیے، جو دوسروں کے اثاثے ریکور کرتے تھے وہ اپنے ایسٹ بھی بتا کر جائیں۔

ان کا کہنا تھا اگر آپ احتساب کی بات کرتے ہیں تو میری گزارش ہے کہ چیئرمین نیب اور جس مشیر کو آپ نے ابھی نکالا ہے ان دونوں سے کہیں کہ جاتے ہوئے اپنے اثاثوں کی تفصیل عوام کے سامنے ظاہر کرتے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ دونوں حضرات گورنمنٹ سروس میں رہے ہیں اس لیے یہ دونوں قابل احتساب ہیں، پریس کانفرنس کریں اور عوام کو بتائیں کہ ان کے کیا اثاثے ہیں۔

لیگی رہنما نے کہا کہ احتساب کے دعوے کرنے والے خود قابل احتساب ہیں، روزانہ تقریر کرنے والے وزیر اعظم اب اس رپورٹ پر بھی قوم کو جواب دیں کہ کرپشن کیوں بڑھی ہے، عوام اس کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں جو اس کرپشن کی قیمت مہنگائی کی صورت میں ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم خود ایک آئینی ادارے کو ریکارڈ نہ دے تو کرپشن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟ دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آڈیٹر جنرل سے ریکارڈ چھپائے جائیں، وزیر اعظم کی جماعت الیکشن کمیشن کو ریکارڈ فراہم نہیں کر رہی، الیکشن کمیشن رکارڈ مانگے تو کونسی طاقت انہیں اس سے روک سکتی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کھل کر بات کریں کہ کس کے تماشے دیکھ رہے ہیں اور کس کو دھمکیاں دے رہے ہیں؟ آپ کا کام دھمکیاں دینا نہیں ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ہمیں یہ باتیں یہاں بیٹھ کر کرنی پڑ رہی ہیں، یہ باتیں پارلیمنٹ میں کرنے والی تھیں لیکن پارلیمنٹ مفلوج ہوچکی ہے۔