|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2022

پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کا بڑا مسئلہ ہے جس پر تاحال قابو نہیں پایاجاسکا ہے جتنے بھی دور گزرے ان میں محض دعوے ہی کئے گئے کیونکہ بڑے پیمانے پر کرپشن میں ملک کی اہم شخصیات ملوث ہیں جو کسی نہ کسی سرپرستی کے ذریعے کرپشن اور بدعنوانیاں کررہے ہیں جب ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو تمام تر مشینری کو حرکت میںلانے کے لیے پورا زور اداروں پر ڈالا جاتا ہے ۔پھر ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ جن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرپشن کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں بغیر کسی دباؤ کے کام کریں۔

مگر بدقسمتی سے نیب جیسے ادارے کو بھی سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔منظور نظر افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرکے اپنے مقاصد کے لیے ان سے کام لیاجاتا ہے افسوس کا مقام یہ ہے کہ جب اس کی نشاندہی میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے تو جانبداری یا پھر بغض قرار دیتے ہوئے میڈیا پر دباؤ بڑھایاجاتا ہے۔ میڈیا کو بھی اسی طرح دہائیوں سے زیرعتاب رکھنے کی پالیسی تمام حکمرانوں نے جاری رکھی ہوئی ہے کہ میڈیا میں حقائق سامنے نہ لائے جاسکیںوگرنہ انہیں انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حقائق کو چھپانے اوراداروں کو دباؤ میں لانے سے نقصان ملک کا ہی ہورہا ہے جس جمہوریت کی بات باربار کی جاتی ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کے دعوے کئے جاتے ہیںمگر افسوس کسی میں بھی برداشت کا مادہ نہیں۔ ہر دور میں یہ ظلم وستم ہوتا رہا ہے نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک بدترین کرپشن اور بدعنوانی کے ریکارڈ توڑرہا ہے اور دنیا میں جو ملک کا امیج بن رہا ہے اس کا اثر کس قدر گہرا اور منفی پڑرہا ہے اس کی پرواہ کسی کوبھی نہیں۔ تمام طاقت اور زور آزمائی کے بعد اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ پاکستان میں کرپشن مزید بڑھ گئی ہے جس کی نشاندہی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے ذریعے کی گئی ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے 180ممالک کا کرپشن پرسیپشن انڈیکس جاری کردیا جس میں پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16درجے اوپر چلا گیا ہے۔ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق پاکستان 180ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر آگیا ہے، کرپشن پرسیپشن انڈیکس اسکورکا کم ہونا بدعنوانی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔2021 میں پاکستان کا اسکور 28 رہا، 2020 میں 31 جبکہ 2019 میں اسکور 32 تھا، پی ٹی آئی کے تین سالہ دور حکومت میں چاردرجہ تنزلی ہوچکی۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس پر ڈنمارک، فن لینڈ، نیوزی لینڈ اور ناروے کی صورتحال سب سے بہترین رہی۔

جبکہ سنگاپور، سویڈن، سوئٹزرلینڈ، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ میں بھی کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔کرپشن پرسیپشن انڈیکس اسکور کے مطابق اسی سے ایک سو اسکور تک والے ممالک میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے۔کیا اب بھی اس اہم اور سنگین نوعیت کے مسئلے کی جانب توجہ نہیں دی جائے گی کیا سیاسی مصلحت پسندی اور شخصیات کے دباؤ میںآکر ملک کے نظام کو چلایاجائے گا ؟اگر یہی رویہ نظام کو چلانے کے سلسلے میں رہا تو ملک میں جو سنگین بحرانات موجود ہیں وہ گھمبیر شکل اختیارکرکے ملک کا دیوالیہ کردیں گے اور اس سے تو غریب عوام ہی نقصان اٹھائے گا کیونکہ جو شخصیات کرپشن اور بدعنوانیاں کرتے آرہے ہیں ان کی جائیدادیں اور رقم بیرون ممالک میں ہیں ان کا کام صرف پاکستان میں رہنا مال بنانا اور باہر بھیجنا ہے ۔خدارا ملک کے نظام کے ساتھ مزید کھیلا نہ جائے اور موجودہ حکومت نے کرپشن کے خلاف جس جہاد کے عزم کااظہار کیا ہے اسے پورا تو کرے، سب پر ہاتھ ڈالاجائے چاہے خواہ حکومتی صف میں ہو یا اپوزیشن میں، کسی سے رعایت نہ برتی جائے ورنہ تاریخ ہمیںکبھی معاف نہیں کرے گی۔