|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2022

اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظوری کے بعد اپوزیشن کے مارچ کی کیا اہمیت رہتی ہے اس نکتے پر زیادہ توجہ دینا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ جو اپوزیشن مارچ کرکے حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری میں لگی ہوئی ہے جبکہ دوسری اپوزیشن گروپ عدم اعتماد کے ڈھول پیٹ کر روز یہ دباؤ بڑھاتے دکھائی دیتی ہے کہ حکومت کو چلتا کردینگے مگر سینیٹ میں جوکچھ ہوا، یہ اپوزیشن کی واضح ہار ہے، نمائندگان کی غیر حاضری اپنی سیاسی جماعتوں کے ساتھ موجودہ حالات میں چلنے کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ وہ کسی طوربھی حکومت کے خلاف بڑا محاذ کے لیے تیار نہیں ہیں ۔

اب یہ تسلی عوام کو بھی ہوگئی ہے کہ موجودہ اپوزیشن حکومت کے خلاف جنگ محض بیانات اورچند مظاہروں تک لڑرہی ہے اصل معرکہ اور جنگ آئندہ مقررہ وقت پر ہونے والے انتخابات میں ہوگی اس سے قبل کوئی بڑی تبدیلی کے دعوے صرف گمراہ کن ہی ہیں۔ اگر اپوزیشن سنجیدہ ہوتی جو آئی ایم ایف کے خلاف روزانہ باتیں کرتے دکھائی دے رہی ہے معاشی پالیسی پر آئے روز تنقید کرتے دکھائی دے رہی ہے کہ تمام تر مالی معاملات آئی ایم ایف کے حوالے کردیئے گئے ہیں ملک کو گروی کردیا گیا ہے ،یہ سب کچھ بیانات اور دباؤ کی حد تک ہے۔ گزشتہ روز اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود حکومت نے اسٹیٹ بینک کی خود مختاری سے متعلق ترمیمی بل سینیٹ سے منظور کرا لیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اسٹیٹ بینک ترمیم بل پیش کیا، بل کی حمایت میں 43 اور مخالفت میں 42 ووٹ پڑے جبکہ صادق سنجرانی نے بھی بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔سینیٹ کے کل اراکین کی تعداد 99 ہے لیکن اہم ترین سیشن کے موقع پر ایوان میں 86 ممبران موجود تھے۔سینیٹ میں حکومت کے اراکین کی تعداد 42 جبکہ دلاور خان گروپ سمیت کے 6 ممبران سمیت اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 57 ہے۔اجلاس کے دوران دلاور خان گروپ کے 6 میں سے دو اراکین ہدایت اللہ اور ہلال الرحمان اجلاس سے غیر حاضر تھے جس میں سے سینیٹر ہدایت اللہ کورونا کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری اور خالدہ طیب بھی اجلاس سے غیر حاضر رہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی، قاسم رانجھو اور سکندر میندھرو اجلاس میں شریک نہیں ہوئے، پی کے میپ کے شفیق ترین اور نسیمہ احسان بھی اجلاس میں موجود نہیں تھیں۔

اسی طرح مسلم لیگ ن کی نزہت صادق کینیڈا میں ہونے اور مشاہد حسین کورونا کے باعث اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔اپوزیشن سے جے یو آئی (ف)کے سینیٹر طلحہ محمود اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر زرقہ طبیعت کی خرابی کے باعث ایوان میں آکسیجن سلینڈر کے ساتھ آئیں۔بہرحال یہ پہلی بار سینیٹ یا قومی اسمبلی میں نہیںہورہا ہے پہلے بھی مختلف بڑے ترامیم اور قانونی معاملات پر اپوزیشن نے بیک فٹ پر رہ کر کھیلا ہے اس لیے حکومتی ارکان اب طنزیہ جملے اپوزیشن لیڈران پر کس رہے ہیں کہ حکومت کو گھر بھیجنے والوں کا شکریہ جنہوں نے اسٹیٹ بینک کے معاملے پر خاموش حمایت کی ہے ۔یقینا خوشیاں تومنائی جائینگی کیونکہ اس میں واضح جیت حکومت کی ہوئی ہے البتہ معاشی پالیسیوں کی ناقص کارکردگی سے کسی طور پر بھی منہ نہیںچھرایاجاسکتا ہے کہ جس طرح سے معاشی طورپر ملک کو بحرانات کا سامنا ہے اسے صحیح سمت پر لے جانے کی ضرورت ہے اور یہی بارہا کہاجارہا ہے کہ خدارا ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی جماعتیں کم ازکم اس مسئلے پر ایک پیج پر آجائیں تاکہ عوامی مسائل حل ہوسکیں ۔