اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کشمیر اور دیگر تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کے لیے اپنے ٹریک ٹو مذاکرات کو بحال کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
روس میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کی سربراہی کانفرنس کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کی اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندرا مودی کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ’’دونوں فریقین تصفیہ طلب مسائل کے حل کی تلاش کے لیے ٹریک ٹو مذاکرات کو بحال کرنے پر متفق ہیں، یہ مسائل طویل عرصے سے تاخیر کا شکار ہیں اور امن کو بحال کرنے کے لیے ان کا حل کیا جانا ضروری ہے۔‘‘
دونوں ملکوں کے سفارتی چینلز کے ذریعے ٹریک ٹو مذاکرات کی بحالی کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔
یہ نواز شریف حکومت کی دوسری کوشش ہوگی۔ بطور وزیراعظم اپنے انتخاب کے فوراً بعد ہی نواز شریف نے ٹریک ٹو کا آغاز کیا تھا، اور اس مقصد کے لیے سفیر شہریار خان کا تقرر کیا گیا تھا۔
تاہم پچھلے سال انتخابات کے بعد دہلی میں حکومتی تبدیلی کے بعد سے اب تک کوئی کامیابی نہیں ہوسکی ہے۔
دونوں فریقین اب ان غیررسمی مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کریں گے۔
ٹریک ٹو مذاکرات نجی شخصیات کی شمولیت کے ذریعے ایک غیررسمی مذاکرات ہیں، ان شخصیات میں زیادہ تر ریٹائرڈ حکام شامل ہوتے ہیں۔ ان مذاکرات کا مقصد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تنازعات کا حل نکالنا ہے۔ یہ عمل طویل عرصے سے دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل کا حصہ رہا ہے اور اس سے باضابطہ مذاکرات کا راستہ نکلا ہے۔
اگرچہ سرتاج عزیز نے زور دے کر کہا کہ کشمیر کا مسئلہ باضابطہ مذاکرات کا ہمیشہ حصہ رہے گا، تاہم ان کی پریس کانفرنس سے ایسا ظاہر ہوا کہ کشمیر پر بنیادی بات چیت ٹریک ٹو مذاکرات میں شامل ہوگی اور یہ مسئلہ باضابطہ ٹریک کی ترجیحی فہرست میں نچلی سطح پر ڈال دیا جائے گا۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ ’’دس جولائی کی ملاقات سے کچھ ایسے راستوں کی نشاندہی کا موقع فراہم ہوا ہے، جن کے ذریعے دونوں ممالک کشیدگی اور نفرت کو کم کرتے ہوئے تعاون کے فروغ کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں۔‘‘
اوفا، روس میں ہونے والی ملاقات میں دہشت گردی سے متعلق دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات سمیت ہندوستانی سرحدی سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) اور پاکستان رینجرز کے ڈائریکٹرز جنرل کی سطح پر مذاکرات اور ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کے ساتھ جنگ بندی کے نفاذ کے لیے فوجی آپریشن پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس طے شدہ بات چیت میں واضح طور پر کشمیر پر مذاکرات شامل نہیں تھے، جن کا ذکر مشترکہ بیان میں بھی موجود نہیں تھا۔
سرتاج عزیز نے مشترکہ بیان میں کشمیرکے مسئلے کی عدم موجودگی کو غیراہم بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مشترکہ بیان میں ذکر کردینے سے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے، بلکہ ان مسائل پر مذاکرات کے ذریعے انہیں حل کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر پر ہماری پالیسی بہت واضح ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یوفا کی ملاقات میں ان مقاصد میں سے ایک میں کامیابی حاصل ہوئی اور وہ مقصد تھا کہ کشیدگی کو کم کیا جائے اور بامعنی مذاکرات کے لیے ماحول تیار کیا جائے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ دس جولائی کی ملاقات مذاکراتی عمل کا باضابطہ آغاز نہیں تھا، بلکہ اس نے دونوں پڑوسیوں کو اس تفہیم تک پہنچنے میں مدد دی کہ کشیدگی اور نفرت کو لازماً کم کیا جائے اور جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلے سمیت تمام دوطرفہ اور علاقائی دلچسپی کے تمام امور پر تعمیری اور منظم مذاکرات شروع کیے جائیں۔
یوفا کی ملاقات پر اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ ’’نہ تو ہمیں کامیابی کا جشن منانا چاہیے اور نہ ہی اس کو بری نظر سے دیکھنا چاہیے۔ تاہم یہ ایک اچھی شروعات تھی اور اس کا انحصار آئندہ کے اقدامات پر ہوگا۔‘‘