|

وقتِ اشاعت :   August 4 – 2015

کوئٹہ : بلوچ نیشنل فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ 18جولائی کو آواران کارروائی سے متاثر ہونے والے علاقوں کا محاصرہ آج سترہویں روز بھی جاری ہے، فضائی بمباری و زمینی فورسز کی کارروائی سے تباہ ہونے والے کئی دیہات تاحال فورسز کے گھیرے میں ہیں متاثرہ علاقوں سے درجنوں خواتین و بچے شہید و زخمی ہو چکے ہیں جن میں چند شہیدوں کو مقامی لوگوں نے شناخت کے بعد اپنی مدد آپ دفنا دیا ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ ایک ہزار سے زائد نفوس پر مشتمل ان دیہاتوں میں اب انسانی زندگی مکمل طور پر ناپید ہو چکی ہے زندہ بچ جانے والے تمام افراد اپنے زخمیوں کو لیکر دور دراز کی پہاڑیوں میں اپنے رشتہ داروں یا دوسرے علاقوں میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیںیہ افراد اپنے اپنے گاؤں کے پہاڑیوں کی جانب جانے والی رستوں سے نکل کر بے گھر آئی ڈی پیز ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں متاثرین کے مطابق فورسز نے ان کے گھروں میں موجود قیمتی سامان لوٹنے کے بعد تمام گھر جلا دئیے، جبکہ علاقے سے نکلتے وقت فورسز اہلکاروں نے اونٹ و بکریوں کو بھی ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں بھوک و بے سر وسامانی کے عالم میں دشوار گزار پہاڑی راستوں سے خواتین و بچوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے میں کئی روز لگے بی این ایف کے ترجمان نے کہا کہ عید کے روز سے جاری ان علاقوں میں کارروائی سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی شہادت و لاپتہ ہونے کے اطلاعات ہیں دو سو کے قریب افراد کی فہرست ہمیں موصول ہوئی ہے جن کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے ، جن کی اکثریت خواتین و بچوں کی ہے،خدشہ ہے کہ یہ افراد اسی بمباری میں شہید ہوچکے ہیں لیکن ان آبادیوں کو زبردستی ان کے علاقوں سے دور منتقل کرنے اور خاندانوں کا مختلف جگہوں میں پناہ لینے کی وجہ سے شہید و لاپتہ بلوچوں کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا انہوں نے کہا کہ متاثرین کی باتوں اور فورسز کی تاحال وہاں موجودگی سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں وہلی، زیریک، حاجی زیارت ، لکو کچ کے دیہاتوں سمیت وسیع علاقہ محاصرے میں ہونے اور کارروائی سے متاثرہ خاندانوں کے منتشر ہونے کی وجہ سے متاثرین بھی نقصانات کا صحیح طور پر اندازہ نہیں لگا پا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ فورسز نے بزداد، مالار، گیشتری سمیت آواران کے کئی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا، متعدد دیہاتوں کو نذر آتش کرنے کے بعد ان علاقو ں سے سینکڑوں لوگوں کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جو کہ تاحال فورسز کی تحویل میں ہیں ترجمان نے کہا کہ فورسز کے اہلکار آواران آپریشن سے متاثرہ علاقے سے زبردستی لوگوں کو خالی ہاتھوں بے دخل کرکے وہاں پر اپنا کیمپ قائم کررہے ہیں، ہزاروں لوگوں کو کئی دنوں تک محاصرے میں رکھنے کے بعد ان کو اپنے علاقو ں سے زبردستی نکالنے جیسی کارروائیاں جنگی قوانین و انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہیں اس طرح کی اعمال سے فورسز کی بلوچ عوام کے خلاف شدید نفرت ظاہر ہوتی ہے ترجمان نے کہا کہ آواران کارروائی کے علاوہ بلوچستان بھر میں تسلسل کے ساتھ فورسز کی کارروائی جاری ہے مشکے میں گزشتہ روز گورکھائی سے گرفتار کرنے والے تین نوجوانوں سمیت پانچ فرزندان کی لاشیں فورسز نے آج مقامی انتظامیہ کے حوالے کیں ، جنہیں شدید تشدد کے بعد شہید کیا گیا ہے جبکہ مستونگ، منگچر، گوادر،پسنی، ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے درجنوں نہتے بلوچ فرزندان کو فورسز نے گرفتار کرکے اپنے ٹارچر سیلوں میں منتقل کردیا ہے، جہاں ان کی زندگیوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں انسانی حقوق کے تنظیموں کی بروقت آواز نہ اُٹھانے کی وجہ سے بلوچ نسل کشی میں شدت لاتے ہوئے اس طرح کی کارروائیوں میں تیزی لا ئے ہوئے ہیں جس کے ذمہ دار انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں بھی ہوں گی۔