بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کا ہے ۔یہاں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں سرکاری وغیرسرکاری اداروں میں ملازمتیں عرصہ دراز سے محدود حد تک موجود ہیںبلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ایک بہت بڑا صوبہ اور وسائل سے مالامال خطے کی سرحدی تجارت کے حوالے سے اہمیت ہونے کے باوجود سرمایہ کاری کا نہ ہونا المیہ ہے۔
بلوچستان کے بیشتر نوجوان پڑھنے لکھنے کے بعد چھوٹا کاروبار کرنے یا پھر کہیں ملازمت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگر مستقل ملازمت سرکاری سطح پر میسر نہیں ہوتی جبکہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی بلوچستان میں موجود ہی نہیں کہ نوجوان کوئی امید اور توقع رکھ سکے کہ اگر ڈگری ملنے کے بعد سرکاری نہیں تو غیر سرکاری بڑی کمپنیوں میں ان کو پُرکشش ملاز مت ملے گی جس سے ان کی زندگی میں خوشحالی آئے گی۔ پورے صوبے کے نوجوان انتہائی مایوس دکھائی دیتے ہیں سرحدی علاقوں سے لے کر شہری اوردیہی علاقوں میں یہی صورتحال ہے نوجوان اپنا مستقبل کس طرح سنوار سکتے ہیں یہ بنیادی سوال ہے اور اسے حل کرنا صوبائی حکومت کاکام ہے کہ چند ملازمتوں سے بیروزگار نوجوانوں کے مسائل حل نہیں ہونگے بڑے میگامنصوبوں میں ان کی شراکت داری، ساحلی علاقوں میں فشنگ کمپنیوں سے ملازمتیں کس طرح نکالی جاسکتی ہیں۔
،صنعتیں قائم کرکے شہریوں کو روزگار مہیا کیاجائے اس کے لیے بڑی پلاننگ کی ضرورت ہے اور ماہرین معیشت کی مشاورت کے بغیر یہ ممکن نہیں ۔بدقسمتی سے بلوچستان میں مشیرصرف وزراء تک ہی محدود ہوتے ہیں جوحکومتی اتحادی ہوتے ہیں مگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ سوچ بالکل نہیں ہوتی بلکہ ماہرین سے رجوع کرکے معیشت سمیت دیگر معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے مشاورت کی جاتی ہے تاکہ ترقی کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ شہریوں کا مستقبل تابناک اور روشن ہوسکے۔گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو سے چیف سیکریٹری بلوچستان مطہر نیاز رانا نے ملاقات کی اس موقع پر صوبائی محکموں میں خالی آسامیوں پر بھرتی کے عمل سے متعلق امور کا جائزہ لیا گیا۔
چیف سیکریٹری نے وزیراعلیٰ کو خالی آسامیوں کی تفصیل اور صوبے ڈویژن اور ضلع کی سطح پر بھرتی کے طریقہ کار کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبائی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں منظور کیے جانے والے طریقہ کار کے مطابق خالی آسامیوں کو میرٹ اور اہلیت کے مطابق پر کیا جائیگا اس موقع پر اتفاق کیا گیا کہ بھرتیوں کے عمل میں سفارش اور دیگر غیر قانونی ذرائع کے استعمال کے ماضی کے تاثر کو دور کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے ،غیر قانونی ذرائع کے استعمال میں ملوث پائے جانے والے افسر ان اور اہلکاروں کے خلاف اینٹی کرپشن ایکٹ اور بیڈا ایکٹ کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور بھرتیاں صرف اور صرف اہلیت اور میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں گی تاکہ کسی حقدار کی حق تلفی نہ ہو۔ وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری نے اس امر سے بھی اتفاق کیا کہ تمام محکموں خصوصی طور پر تعلیم اور صحت جیسے اہم محکموں میں ڈیلیوری سسٹم کی بہتری کا انحصار قابل اور باصلاحیت افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی پر ہے اور یہ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ انتظامی و مالی امور کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے میرٹ کو فروغ دے۔ چیف سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ انہوں نے سیکریٹریز کمیٹی میٹنگ میں واضح کیا ہے کہ سیکریٹری اپنے اپنے محکموں میں بھرتیوں کی شفافیت کے ذمہ دار ہونگے جبکہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو بھی شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کا پابند کیا گیا ہے۔
ملاقات میں بھرتیوں کے عمل کی مانیٹرنگ اور امیدواروں کی شکایات کے ازالے کا میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر واشگاف الفاظ میں کہا کہ بھرتیوں کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں میں بھی کرپشن ناقابل برداشت ہے اور وسائل کے ضیاع اور ترقیاتی فنڈز میں بدعنوانی میں ملوث عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان پر لگے بدعنوانی کے داغ کو صاف کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے ،ماضی میں صوبہ بہت نقصان اٹھا چکا ہے اور اب مزید نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔انہوں نے چیف سیکریٹری سے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کو بھرپور طور پر فعال کر نے کی ہدایت کی۔بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان دیگر ذرائع معاش پر بھی توجہ دیںجس سے بلوچستان میں ترقی کے راستے کھل جائیں اور روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوں۔ امید ہے کہ اس جانب وزیرمیرعبدالقدوس بزنجو توجہ دینگے۔