ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں میں بہت تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے ،اہم بیٹھک لگ رہے ہیں بڑے قائدین خود میدان میں دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں ایجنڈا حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کالانا ہے اور اسی سلسلے میں نہ صرف اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کررہی ہیں بلکہ حکومتی اتحاد میںشامل جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے اور بیٹھکیں لگارہی ہیں ۔
کسی حدتک اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے قبل اپوزیشن اتنی متحرک دکھائی نہیں دے رہی تھی مگرگزشتہ چند دنوں میں اس میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے مگرسب سے بڑا مسئلہ اب بھی یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کا آغاز کہاں اور کس طریقے سے کیا جائے گا اس پر اپوزیشن میں اتفاق واضح نظر نہیںـ آرہا ہے ۔گزشتہ روز سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملاقات ہوئی۔ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی کو 27 فروری کا لانگ مارچ ملتوی کرنے کا مشورہ دے دیا اور کہا کہ الگ الگ لانگ مارچ کرنے سے حزب اختلاف کی تقسیم کا تاثر ملتا ہے، اسی لیے پیپلز پارٹی حزب اختلاف کے ساتھ لانگ مارچ میں شریک ہو۔سابق صدر آصف علی زرداری نے تجویز دی کہ پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانی چاہیے۔
آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان اس بات پر اتفاق نہ ہو سکا کہ تحریک عدم اعتماد پہلے مرکز میں لائی جائے گی یا پنجاب میں؟ تحریک عدم اعتماد سے متعلق آصف علی زرداری صدر مسلم لیگ ن اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے بھی مزید مشاورت کریں گے جبکہ مسلم لیگ ن کے اتحادیوں کی بجائے حکومتی ناراض ارکان کو ساتھ ملانے کی تجویز پر بھی غور کی جا رہی ہے۔آصف زرداری نے کہا کہ ن لیگی رہنماؤں کے مطابق 20 سے 22 ناراض ارکان نے ن لیگ کو حمایت کا یقین دلایا ہے اور حکومتی ناراض ارکان کی حمایت سے تحریک عدم اعتماد متنازع ہوسکتی ہے۔مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کی رائے ہے کہ اتحادیوں کو ساتھ ملانا چاہیے جبکہ فضل الرحمان اور آصف علی زرداری نے حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ پر مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔اس سے قبل بھی پیپلزپارٹی نے عدم اعتماد کی تحریک پنجاب سے لانے کی بات کی تھی اور یہ بات پی ڈی ایم اجلاس کے دوران بلاول بھٹو زرداری دہرا چکے تھے مگر اس پر پی ڈی ایم میں اتفاق نہ ہوسکا اور دیگر مسائل بھی پیدا ہوئے تھے۔
جس کے بعد پی ڈی ایم اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔اب اس بات پر زیادہ زور دیاجارہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم ایک ساتھ مارچ کریں اور آئندہ بھی مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں، خاص کر عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے ملکر مشاورت کی جائے جس پر ابھی بات چیت چل رہی ہے ،مزید اپوزیشن کی مرکزی قیادت اس پر سوچ بچار کرے گی اور بعدمیں فیصلہ کیا جائے گا کہ کرنا کیا ہے مگر اتفاق رائے ایک بڑا مسئلہ ہے جس نے اپوزیشن کو ابھی تک ایک حتمی فیصلے تک نہیں لایاہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی قیادت کیا فیصلہ کرے گی جس کے بعد ہی سیاسی منظر نامہ واضح ہوجائے گا کہ اپوزیشن کی تحریک کس سمت جائے گی اور انہیں کتنی کامیابی ملے گی۔ دوسری جانب حکومت پُرامید دکھائی دے رہی ہے البتہ ملکی سیاسی پارہ مزید ہائی ہونے کا امکان ہے۔