تحریک عدم اعتماد کے مسودے کی تیاری آخری مراحل میں ہے۔ تحریک پر80 سے زائد اپوزیشن اراکین کے دستخط کرائے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے پارٹی رہنمائوں کوچائے پربلایا۔ملاقات کے دوران مسودہ پر مشاورت مکمل کرکے قیادت سے جمع کرانے کی ہدایت کا انتظار ہوگا۔ تحریک کے مسودے پر پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی ف، اے این پی، بی این پی مینگل اور دیگر کے دستخط ہیں۔اپوزیشن نے اسمبلی اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی تیار کر رکھی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے چیمبر کو الرٹ کردیا گیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد اور ریکوزیشن کسی بھی وقت جمع کرائی جا سکتی ہے۔
یاد رہے گزشتہ روز پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگلے 2 سے 3 دن بہت اہم ہیں، عدم اعتماد لانے اور قومی اسمبلی اجلاس کی ریکوزیشن دونوں پر غور ہورہا ہے۔مولانا نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس تحریک کی کامیابی کے لیے نمبرز پورے ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد کر رہی ہیں کیونکہ اب اپوزیشن جماعتوں کی ضرورت ایک ہو گئی ہے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد سے ق لیگ کاتعلق نہیں،حکومتی اتحادیوں کے بغیر بھی نمبر پورے ہیں۔ عدم اعتماد ق لیگ، ایم کیو ایم سمیت دیگر اتحادیوں کے بغیر بھی ہوجائے گی۔ق لیگ کے اپنے فیصلے ہیں،عدم اعتماد سے ان کا تعلق نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد پر پیپلزپارٹی سمیت سب جماعتیں متحد ہیں۔عدم اعتماد پر جن لوگوں کا ہمارے ساتھ رابطہ ہے وہ پُراعتماد ہیں۔ایمپائر کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔
انہوں نے مولانا فضل الرحمان کی جانب سے 48 گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 48گھنٹے میں ریکوزیشن چلی جائے گی۔ریکوزیشن عدم اعتماد کی تحریک کے لیے اجلاس سے متعلق جمع کرائی جائے گی۔واضح رہے کہ ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کاگزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان گھبرائے نہیں ہیں ۔بہرحال اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اپوزیشن ق لیگ ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے آسرے پر میدان میں نہیں کھیل رہی ہے بلکہ انہوں نے اندرون خانہ اپنی تیاری کرلی ہے جبکہ جہانگیر ترین جو وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست ہیں ان کا اب تک کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے کہ کس کاساتھ دینگے۔
جہاں تک ق لیگ کا معاملہ ہے تو ق لیگ نے ایک لمبی فہرست اپوزیشن کے سامنے رکھی تھی جس میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ ، اسپیکر قومی اسمبلی سمیت پنجاب اور وفاق میں اہم وزارتوں کی ڈیمانڈ شامل ہے یقینا مسلم لیگ ن سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیںاس پر راضی نہیں ہونگی اور یہ ڈیمانڈ اپوزیشن پوری بھی نہیں کرسکتا لہٰذا ق لیگ اپنے پرانے اتحادی پی ٹی آئی کے ساتھ ہی چلے گی مگر ق لیگ دونوں طرف اس وقت موجود ہے اور ق لیگ کی قیادت کی کوشش یہی ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کی اس کشمکش میں سیاسی حوالے سے مرکزی حیثیت رکھے ۔ بہرحال اپوزیشن نے اپنی مکمل تیاری کرلی ہے مگر حکومت نے بھی بھرپور مقابلے کے لیے کمرکس لی ہے اور اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ رابطے شروع کردیئے ہیں تاکہ عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنایاجاسکے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عین وقت پر کس کا پلڑا بھاری ہوگا مگر جو بھی ہوگا سیاسی منظرنامے کے لیے بڑا ہی دلچسپ ہوگا۔