کوئٹہ : وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے بلوچستان سے لاپتہ طلبا کے لیے اسلام آباد میں پرامن احتجاج کرنے والے بلوچ طلبا اور انسانی حقوق و سماجی کارکن ایمان مزاری ایڈوکیٹ اور ایم این اے محسن داوڈ سمیت دیگر سول سوسائٹی کے لوگوں پر پولیس کی طرف سے طاقت کی استعمال اور انکے خلاف بغاوت کے مقدمات کا اندراج کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کا یہ ظلمانہ رویہ عوام کو ڈرا کے رکھنے اور کنڑول کرنے کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگانے کی مترادف ہے جس کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کو اب سمجھنا چائیے کہ اس طرح کے منفی ہتھکنڈوں سے پرامن آوازوں کو دبانے سے لوگ عدم تحفظ کے شکار ہونگے۔
اور ان کے دلوں نفرت بڑھی گی جس کی وجہ سے انتشار پہلے گی جو ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگا اس لیے حکمرانوں کو دانشمنانہ فیصلے کرنے ہونگے اور پرامن آوازوں کو انہیں سنا چاہیے اور ملکی آئین کے تحت عوام کی داد دسی کرنی چاہیے نصراللہ بلوچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی بلوچ طلبا اور ایمان مزاری سمیت دیگر لوگوں انتظامیہ کی طرف سے طاقت کے استعمال اور انکے خلاف بغاوت کے مقدمات کے اندراج کو عوام کی نبیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے کر پولیس کو بلوچ طلبا اور ایمان مزاری سمیت دیگر کی گرفتاروں سے روکنے کے حکم کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ عدلیہ کے طرف سے عوام کے بنیادی حقوق کی تحفظ اور ریاست کی طرف سے غیر آئینی اقدامات کی حوصلہ شکنی سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوگا نصراللہ بلوچ نے اس امید کا اظہار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بلوچ طلبا سمیت دیگر لوگوں پر درج ایف آئی آر کو ختم اور بلوچ طلبا کی تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔