ملک میں ایک بارپھر دہشت گردی کی ہوا چل پڑی ہے جسے سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ کے بعد پشاور میں دھماکہ ایک خطرناک صورتحال کی نشاندی کررہا ہے جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں جس میں ملک کے بڑے شہر سرفہرست ہیں ۔اس وقت ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر دہشتگردی کے حالیہ واقعات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس سے نمٹنے کیلئے مشترکہ پالیسی بنائیں اور نیشنل سیکیورٹی کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس حوالے سے اہم بیٹھک لگائے تاکہ بروقت دہشتگردوں سے نمٹا جاسکے وگرنہ صورتحال مزید گھمبیر ہوجائے گی۔ ملک پہلے سے ہی بحرانات اور چیلنجز کا سامنا کررہا ہے دوسری جانب امن وامان کا مسئلہ بھی پیداہوچکا ہے اگر ایک پیج پر سب اکٹھے نہ ہوئے تو ملک میں بڑے بحرانات پیدا ہوسکتے ہیں لہٰذا حالیہ واقعات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک میکنزم تیار کیاجائے ۔
گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور میں خود کش حملے کے دوران 63 افراد جاں بحق ہوئے۔ ترجمان لیڈی ریڈنگ اسپتال کے مطابق پشاور خودکش دھماکے کے مزید 4 زخمی دوران علاج دم توڑ گئے ہیں جبکہ لیڈی ریڈنگ اسپتال میں دھماکے کے 37 زخمی زیر علاج ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں زیر علاج دھماکے کے زخمیوں میں سے 5 کی حالت تشویشناک ہے جبکہ ایک زخمی کو طبی امداد کے بعد اسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب پشاور میں خودکش دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانے میں درج کر لیا گیا۔ پشاور دھماکے کا مقدمہ ایس ایچ او تھانہ خان رازق کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ مقدمہ میں قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ روز پشاور کے علاقے قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد میں فائرنگ کے بعد خودکش دھماکہ ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق کوچہ رسالدار کی مسجد میں خود کش حملہ آور نے داخل ہو کر پولیس اور نمازیوں پر فائرنگ کی اور پھر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔آئی جی خیبر پختونخوا معظم جا انصاری نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس موقع پر موجود تھی، مسجد کے باہر 2 اہلکار سیکیورٹی پر تعینات تھے، حملہ آور نے پہلے فائرنگ کی جس سے ایک کانسٹیبل موقع پر شہید جبکہ دوسرا زخمی ہو گیا
جس کی حالت تشویشناک ہے۔ اس سے قبل بھی عبادت گاہوں سمیت تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایاگیا ہے ۔2013ء کے دوران ایک گرینڈآپریشن کا آغاز کیاگیا جس میں بڑی کامیابی ملی اور کسی حد تک ملک کے اندر دہشت گردی کے واقعات رک گئے۔ نیشنل ایکشن پلان اس وقت حالات کی اشد ضرورت ہے اس میں تیزی لائی جائے اور دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیاجائے تاکہ شدت پسند گروپوں کا ملک سے خاتمہ ممکن ہوسکے۔امید ہے کہ موجودہ حکومت تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت سے مل کر ایک مشترکہ بیانیہ دہشت گردوں کے خلاف اپنائے گی تاکہ دہشت گردی کے واقعات سے بروقت نمٹا جاسکے ،اگر سیاسی کشمکش اور تنقیدی عمل کا سلسلہ جاری رہا تو کامیابی نہیں ملے گی، سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس وقت دہشت گردی سے نمٹنا ضروری ہے تاکہ ملک میں استحکام برقرار رہ سکے۔ سیاسی استحکام ہی امن کا ضامن ہوسکتا ہے اور اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہی ہے ،عوام پہلے سے ہی بہت سے مسائل میں گری ہوئی ہے اب دہشت گردی کی نئی لہر کی وجہ سے عوام میں شدید تشویش پائی جاتی ہے لہٰذا مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے ایک پیج پر آنا ضروری ہے۔