وقت کم اورمقابلہ سخت ہے، حکومت اوراپوزیشن نے ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے کمرکس لی ہے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرانے کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس نمبر گیم پورے ہیں، مفاہمت کے بادشاہ نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ عددی تعداد سے بڑھ کر بھی اراکین ہمارے ساتھ ہیں ان کے نام بھی لے سکتا ہوں۔ بہرحال انتہائی دلچسپ گیم اس وقت سیاسی حوالے سے چل رہا ہے اس تمام عمل میں اراکین قومی اسمبلی کی اہمیت بڑھ گئی ہے جنہیں پہلے نظرانداز کیاگیا اب ان سے بھی رابطے کئے جارہے ہیں ،جبکہ پنجاب کے اراکین اسمبلی اس پورے عمل میں اہم کھلاڑی کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔
البتہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پی ٹی آئی کو اپنے ہی ناراض اراکین سے ہے خاص کر علیم خان اور جہانگیرترین جو وزیراعظم سے نالاں دکھائی دے رہے ہیں جس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ دونوں کو پی ٹی آئی کی جانب سے دیوار سے لگایا گیا، جہانگیر ترین اور علیم خان پر کیسز بنے علیم خان جیل میں بھی رہے ،دونوں پی ٹی آئی کے صف اول کے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے تھے اور پی ٹی آئی کو بڑی جماعت بنانے اور آزاد امیداواران کو لانے میں مرکزی کردار انہی کا ہی رہا ہے ۔ساتھ ہی پنجاب میں تمام تر سیاسی سرگرمیوں کا بیڑا بھی انہی کے کاندھوں پر تھا ۔جہانگیر ترین اور علیم خان کو بنی گالہ اور وزیراعظم سے دور کرنے کے حوالے سے یہ بات کی جاتی ہے کہ اس میں چند ایک شخصیات شامل ہیں ۔بہرحال پی ٹی آئی کو اگر اس وقت کسی سے خطرہ ہے تو وہ اسے اپنے ممبران ،اپنی جماعت کے اندر موجود اختلافات کی وجہ سے ہے جس میں سرفہرست مسئلہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کا ہے۔ اس کا اظہار علیم خان میڈیا کے سامنے کرچکے ہیں کہ ان کی ناراضگی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ طعنہ بھی دیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے پاس جو مراعات ہیں ان سے کئی گنا زیادہ ان کے پاس ہیں ۔
ان کا براہ راست مخاطب وزیراعظم ہی تھے مگر وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کو کسی صورت تبدیل نہ کرنے کا واضح پیغام آچکاہے کہ عثمان بزدار نے سب سے بہترین کارکردگی دکھائی ہے اورجو ناراض ہیں وہ وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے امیدوار ہیں ۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کے متواتر حملے اپوزیشن پر جارہی ہیں ۔گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا اور اپنی جماعت اور اتحادیوں سے ملاقات کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کے عوام زرداری مافیا سے آزادی چاہتے ہیں۔ میرا پہلا ٹارگٹ آصف علی زرداری ہو گا۔ زرداری مافیا سندھ کے عوام کے ساتھ ظلم کر رہا ہے اور پاکستان میں سندھ سب سے زیادہ تبدیلی چاہتا ہے۔ 14 سال سے سندھ کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ نے تو دورہ کر لیا لیکن اب اگلی باری میں اندرون سندھ کا دورہ کروں گا۔ سندھ کے عوام سے کہتا ہوں آپ کی آزادی کا وقت آ گیا ہے۔ کراچی میں وہ کام کریں گے جو آج تک کسی نے نہیں کیے۔عمران خان نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان میں پیٹرول اور فضل الرحمان دبئی سے زیادہ سستا ہے اور ہم نے 20 روپے پیٹرول اور فضل الرحمان کو کم کیا۔انہوں نے کہا کہ ہر دو ماہ بعد چور اکٹھے ہوتے ہیں کہ آج حکومت گئی کل گئی۔ ڈاکوؤں کے گلدستے خود کو آنا شروع ہو گئے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اپوزیشن کی گردن کسی طرح میرے ہاتھ آ جائے۔ ڈاکوؤں کو نہیں پتہ ہم نے کتنے بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا کیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ عدم اعتماد ناکام ہونے کے بعد میں ان کے پیچھے جاؤں گا اور میرا پہلا ٹارگٹ آصف علی زرداری ہو گا۔ یہ چوری کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، کمیشن کھاتا ہے۔ آصف زرداری تمھارا وقت آ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے ایک رکن قومی اسمبلی نے بتایا کہ مجھے 20 کروڑ روپے کی آفر ہوئی ہے تو میں نے کہا کہ پکڑ لو پیسے ویسے بھی یہ حرام کا پیسہ ہے۔ اس کے بعد کوئی پناہ گاہ کھول دینا کوئی لنگر خانہ کھول دینا کوئی یتیم خانہ کھول دینا۔عمران خان نے کہا کہ عدم اعتماد اپوزیشن والوں کی سیاسی موت ہے۔ میں ڈاکوؤں اور چوروں کے خلاف گزشتہ 25 سال سے جدوجہد اور جہاد کر رہا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری دُعائیں قبول کر لی ہیں۔اب وزیراعظم عمران خان پُراعتماد بھی دکھائی دے رہے ہیں اور ان کا اس وقت بظاہر حملے اپوزیشن پر توہورہے ہیں مگر یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جہانگیر ترین اور علیم خان سے رابطوں اور انہیں آن بورڈ لینے کے حوالے سے ہدایات بھی دی ہیں اور خود وزیراعظم بھی اس حوالے سے براہ راست رابطوں میں لگے ہوئے ہیں ۔دیکھنا یہ ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناراضگی ختم ہوگی یا نہیں کیونکہ دونوں کی اہمیت ووٹنگ کے حوالے سے بہت زیادہ ہے جبکہ ق لیگ کے چوہدری شجاعت نے مولانافضل الرحمان سے ملاقات کرکے اپنے پتے درمیان میں رکھ دیئے ہیں تاکہ دونوں طرف ان کی اہمیت برقرار رہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند روز میں کونسا بڑا بریک تھرو سامنے آئے گا فی الوقت سیاسی جوڑ توڑ دونوں طرف سے جاری ہے جس کا پلڑا بھاری ہوگا وہی میدان مارلے گا۔