اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق کا ضلع قصور میں بچوں کے ساتھ بد فعلی ،کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال لاپتہ والدین بچوں کی ولدیت ،جیکب آباد میں عزت کے نام پرشوہر کے ہاتھوں بیوی کے قتل پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کمیٹی کی طرف سے چھ سال تک قصور کے گاؤں میں بچوں کیساتھ ہونیوالی بدفعلی پر پولیس کی نا اہلی کو سوالیہ نشان قرار دیا ۔ کمیٹی نے اس گھناؤنے فعل کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی ہوئی ۔والدین اور معصوم بچوں کے مستقبل کو تاریک بنایا گیا گھناؤنے فعل کے ذمہ داران کسی رعایت کے مستحق نہیں قانون کے کٹہرے میں لا کر عبرت ناک سزا دیتے کیلئے پولیس ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ہدایت دی کہ شرم ناک معاملے کی سنگینی کی وجہ سے مقدمے کی سماعت اور تفتیش کی پیش رفت سے بھی کمیٹی کو باقاعدہ آگاہ رکھا جائے اور اس رائے کا اظہار کیا کہ اتنے عرصے سے یہ گھناؤنے واقعات ہو رہے تھے پولیس کیا کر رہی تھی ۔ پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین نثار خان مالاکنڈ کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی نیضلع قصور میں بچوں کے ساتھ بد فعلی ،کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال لاپتہ والدین بچوں کی ولدیت ،جیکب آباد میں عزت کے نام پرشہر کے ہاتھوں بیوی کے قتل پر تشویش کا اظہار کیاہے ۔ کمیٹی کی طرف سے چھ سال تک قصور کے گاؤں میں بچوں کیساتھ ہونیوالی بدفعلی پر پولیس کی نا اہلی کو سوالیہ نشان قرار دیا ۔ کمیٹی نے اس گھناؤنے فعل کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر بھی بدنامی ہوئی ۔والدین اور معصوم بچوں کے مستقبل کو تاریک بنایا گیا گھناؤنے فعل کے ذمہ داران کسی رعایت کے مستحق نہیں قانون کے کٹہرے میں لا کر عبرت ناک سزا دیتے کیلئے پولیس ضلعی انتظامیہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور ہدایت دی کہ شرم ناک معاملے کی سنگینی کی وجہ سے مقدمے سماعت اور تفتیش کی بیش رفت سے بھی کمیٹی کو باقاعدہ آگاہ رکھا جائے اور اس رائے کا اظہار کیا کہ اتنے عرصے سے یہ گھناؤنے واقعات ہو رہے تھے پولیس کیا کر رہی تھی ۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میڈیاء پر خبر آنے کے بعد ہی پولیس کو ہوش آیا اور کہا کہ متاثرین کا تو مستقبل تباہ کر دیا گیاہے ۔ اجلاس میں آر پی او ضلع شیخو پورہ صاحبزادہ شہزاد سلطان نے قصور واقعہ کے حوالے سے آگاہ کیا کہ گھناؤنا جرم 2009سے شروع تھا لیکن شر م و حیاء کے باعث متاثرہ بچوں اور والدین نے آگاہ نہیں کیا تاہم کل اٹھارہ مقدمات درج ہوئے ہیں اور متاثرین کی تعداد سترہ ہے ۔ سولہ ملزمان میں سے بارہ گرفتا ر ہیں دو کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔پہلی ایف آئی آر 25مئی 2015دوسری جولائی 2015میں درج کروائی گئی جس سے قبل تمام گرفتاریاں ہو چکی تھیں 30ویڈیوز کی فرانزک رپورٹ بنوائی گئی 9ویڈیو درست ثابت ہوئیں اور اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ متاثرین کی تعداد 284ہے ۔گھناؤنے جرم کے ماسٹر مائنڈحسیم عامر کی عمر 25سال ہے جسکی عمر 2009میں 16سال تھی ویڈیو میں ملزم متاثرہ بھی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مجرم نے پہلے گناہ شروع کیا بعد میں خود بھی بد فعلی شکار ہوتا رہا ویڈیو ز میں کوئی بھی لڑکی شامل نہیں لیکن اسی گاؤں میں ایک خاتون نے اجتماعی زیادتی کی ایف آئی آر کٹوائی ہے ،30ویڈیوز آئی ہیں لیکن میڈیاء پر 4سوکا ذکر کیا جا رہا ہے ۔آر پی او صاحبزادہ شہزاد سلطان نے مزید آگاہ کیا کہ گاؤں میں دو برادریاں بستی ہیں ایک آرائیں اور دوسرے اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے ہیں میدیاء کی طرف سے معاملے کو اٹھانے سے پولیس حرکت میں آئی ذاتی طور پر اپنی نگرانی میں متاثرین کو شکایت درج کرانے کیلئے مساجد میں منادیاں کرائی گئیں اوراب بھی ذمہ داری سے ضمانت دیتا ہوں کہ کسی بھی سطح کی سفارش یا فون پر بات کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوئی ۔ شیطان صفت درندوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر مثال بنا دیا جائیگااور کہا کہ جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں آئی ایس آئی اور آئی بی کے افسران بھی شامل ہیں اس افواہ پر کہ پولیس مجرموں کی مدد گار ہے احتجاج کیا گیا اور جلوس نکالے گئے لیکن عدالت نے مجرمین کے والد ،تایا ، چچا زاد بھائیوں اور بیٹوں کی طرف سے اجتماعی بد فعلی کے الزام پر مجرموں کے والدین اور چچاؤں کو ضمانت پر رہا کیا۔اجلاس میں سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سیکیورٹی اداروں کو پارلیمنٹ کے ماتحت لانے کے حوالے سے کہا کہ اداروں کو پارلیمنٹ ماتحت لانا چاہیے تاکہ انکی بھی پوچھ گچھ ہو سکے ۔کمیٹی نے سفارش کی کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے ۔کمیٹی کے اجلاس میں کراچی آپریشن پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سیکیورٹی اداروں کے بارے میں شکایات ماورائے عدالت و قانون قتل کے حوالے سے بھی بہترین میکنزم قائم ہونا چاہیے ۔چیئر مین کمیٹی نثار مالا کنڈ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے ریاستی ذمہ داریوں کے معاملے اور فرائض کے بار ے میں تاثر مثبت قائم کیا جائے معاملات کی نوعیت کو سامنے رکھ کر مقصدیت کو حاصل کیا جانا چاہیے او ر کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے کیلئے کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں آئی جی ایف سی بلوچستان ،آئی جی سندھ ، چیف سیکریٹری سندھ سے بریفنگ لینے کے علاوہ قصور واقع کے حقائق جانے کیلئے کمیٹی کا قصور کے دورے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ کراچی اور بلوچستان میں اپریشن کے مثبت نتائج ہیں لیکن آئین اور قانون کے دائرہ کار سے باہر نکل کر اقدامات بنیادی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں ۔سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ کراچی آپریشن کی وجہ سے ٹارگت کلنگ بھتہ خوری کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے سینیٹر ثمینہ عابد کی طرف سے جیکب آباد میں غیرت کے نام پر اپنی بیوی کو والدین کے سامنے قتل کرنے والے درندہ صفت خاوند کے بارے میں سندھ پولیس کے افسران نے آگاہ کیا کہ مجرم وقار نصیر ا آباد میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا ہے ۔ سینیٹر کریم احمد خواجہ کی طرف سے لاپتہ والدین بچوں کی ولدین اور شہریت کے بارے میں کمیٹی نے معاملے کی مکمل حمایت کی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ نادرا نے لاپتہ والدین بچوں کی رجسٹریشن کا آغاز کر دیا ہے حکومت بھی اقداما ت اٹھائے ۔کمیٹی کے اجلاس میں حقوق اطفال کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ حکومت کی طرف سے وزیر اعظم کو سمری بھجوا دی گئی ہے لیکن معاملہ کیڈ اور قانون انصاف کے درمیان لٹکا ہو ا ہے جس پر کمیٹی نے متفقہ ہدایت دی کہ اسلام آباد کی حد تک عمل درآمد شروع کر دیا جائے تا کہ صوبے بھی اس پر عمل کر سکیں ۔