|

وقتِ اشاعت :   March 25 – 2022

کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلو چستان میر عبد القدو س بزنجو نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت صوبے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات ٹھا رہی ہے بلوچستان کو شورش نہیں بلکہ سرمایہ کاروں کا میدان بنائیں گے سیاست سے بالا تر ہوکر ہمیں بلو چستان کے مسائل کو حل کر نے کے لئے ہمیں ایک پیج پرآنا ہو گا، ریکوڈک سمیت بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے تمام اسٹیک ہولڈز کو اعتما د میں لیا گیا صوبے کو ریکوڈک معاہدے میں نامساعد حالات میں بھی بڑا حصہ ملنا تاریخی اقدام ہے، یہ بات انہوں نے جمعرات کو سول سیکرٹریٹ کوئٹہ میں میڈ یا سے گفتگو کر تے ہوئے کہی،

اس موقع پر گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا بھی مو جود تھے، انہوں نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے پر عملدآمد سے بلو چستان میں تر قی کی راہیں کھلیں گی اب بلوچستان کو کسی کو بھی شورش کا میدان نہیں بنانے دیں گے آنے والے دور میں بلو چستان سرمایہ کاروں کا میدا ن ہوگاانہوں نے کہا کہ سیا ست اپنی جگہ لیکن بلو چستان کے اہم مسائل کو حل کر نے کے لئے ہمیں ایک پیج پر آنا ہو گا ، ریکوڈک کے معاہدے سے قبل بلو چستا ن نیشنل پارٹی کے سربراہ سر دار اختر مینگل ،نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبد المالک ،پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ، سینیٹر مولانا عبد الغفور حیدری ، جمعیت علماء نظر یا تی سمیت اسٹیک ہولڈ سے ملا قاتیں کیں اور انہیں اعتماد میں لیا ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی کے ان کیمرہ اجلا س کے روز ایوان کو کمیٹی روم قرار دیا گیا اور 9گھنٹے تک ریکوڈک سے متعلق تمام اراکان اسمبلی کو سنا گیا اور انہیں مطمئن کیا گیا ، انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت ہر سب کا موقف ہے کہ صوبے کو ریکوڈک منصوبے میں زیادہ سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے تھا

لیکن سابقہ معاہدے کی وجہ سے 11ارب ڈالر کا بوجھ آیا تھا جن حالات میں معاہدہ کیا گیا ہے اور صوبے کو شیئر، رائلٹی، سی ایس آر کی مد میں جو کچھ حاصل ہورہا ہے اس پر شابا شی دیں گے کیونکہ تاریخ میں کبھی سونے اور تانبے کے کسی بھی منصوبے میں کسی صوبے کو اتنا حصہ نہیں ملا یہ ایک تاریخی اقدام ہے ، انہوں نے کہاکہ بیرک گولڈ کے مالک مارک بسٹو کی جانب سے یقین دہا نی کروائی گئی ہے کہ بلو چستان حکومت کی مالی مدد کر تے رہیں گے نوجوانوںکی استعداد کو بڑھانے، کے لئے 8000افراد کو بیرون ملک سے تربیت بھی فراہم کی جائیگی ، انہوں نے کہاکہ بلو چستان کو رائلٹی کی مدد میں پیسے ملیں گے ،سابقہ حکمرانوں کے دور میں بلو چستان کے مسائل کو اس انداز میں سنجیدیگی سے نہیں لیا گیا جس طرح ہم لے رہے ہیں۔