وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کا استعفیٰ حکومت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے علاوہ کچھ کبھی نہیں ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران وزیراعظم عمران خان یہ بات دہراتے آئے ہیں کہ عثمان بزدار کی کارکردگی سب سے بہترہے اور وہ پنجاب میں بہت اچھا کام کررہے ہیںاور سب عثمان بزدار کے خلاف ہیں بلاوجہ تنقید کرکے ان کے بہترین کارناموں کو بھی بری طرح پیش کررہے ہیں ۔یہ تمام تر باتیں وزیراعظم عمران خان ہر جگہ دہراتے آئے ہیں جبکہ پنجاب میں ان کی اپنی جماعت کے ارکان اور اتحادی عثمان بزدار سے ناخوش اور ناراضگی کا اظہار برملا کرتے آئے ہیں۔ بہرحال اب عثمان بزدار نے استعفیٰ دیدیا ہے مگر ان کی اپنی مرضی و منشا اس میں شامل نہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان بھی ذاتی طورپر اس کی حمایت میں نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ہر وقت عثمان بزدار کا دفاع کیاہے اور واضح طور پر یہ کہا تھا کہ جس نے بھی ہمیں چھوڑنا ہے چھوڑدیں مگر میں بلیک میل نہیں ہونگا اور عثمان بزدار کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے نہیں ہٹائینگے مگر سیاست لچک کا نام ہے دوقدم آگے اور چارقدم پیچھے جبکہ جھکنا بھی پڑتا ہے۔
اب وزیراعظم عمران خان نے ایک ایسے وقت پریہ فیصلہ کیا ہے کہ انکی اپنی جماعت اور اتحادی ارکان ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے جارہے ہیں، اس لیے عین وقت پر اب یہ فیصلہ مجبوراً کرنا پڑا ہے یہ کوئی بڑی سرپرائز نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو بچانے کے لیے عثمان بزدارکو قربانی کا بکرابنادیا گیا ہے اور یہ خبریں پہلے سے ہی آرہی تھیں کہ کسی بھی وقت عثمان بزدار کی قربانی دی جائے گی اور بلآخر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور ق لیگ کے قائدین کے درمیان ملاقات ہوئی اور معاملات طے پاگئے۔ چونکہ ق لیگ کے مطالبات میں سرفہرست یہی رہا ہے کہ انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب دیا جائے اور وفاق میں اہم عہدے بھی اس میں شامل ہیں ۔پیپلزپارٹی نے ن لیگ کو اس حوالے سے پہلے ہی راضی کرلیاتھا اور ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر اتفاق کرلیا گیا تھا۔ بہرحال اس سے اپوزیشن کو بڑا دھچکا ضرور لگا ہے
مگر یہ کوئی سرپرائز نہیں ہے بلکہ سیاسی داؤ پیج اور عملاََ ڈپلومیسی کی طرف پی ٹی آئی نے اپنی سیاسی سمت کردی ہے کیونکہ اس سے قبل یہی دعوے کئے جارہے تھے کہ کسی کے ہاتھوںبلیک میل نہیں ہونگے حق اورسچ کی جنگ لڑی جارہی ہے ۔ق لیگ کے متعلق ماضی میں پی ٹی آئی کیا کہتی رہی ہے یہ ریکارڈ پرموجود ہے جو اب پیپلزپارٹی، ن لیگ اور جے یوآئی ف کے متعلق کہاجارہا ہے ۔بہرحال یہ پہلے سے ہی سوچنا ضروری ہے کہ سیاست میں آخری حد تک نہیں جانا چاہئے تاکہ دوبارہ انہی سے رجوع کرنا پڑے جنہیں ڈاکو چور جیسے القابات سے نوازا جائے ،اب یہی سب کچھ ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیوایم کو بھی خوش کرنے کے لیے اب گورنر سندھ کا عہدہ دینے کے حوالے سے خبریںا ٓرہی ہیں یعنی ماضی میں جو بیانیہ تھا اب اس میں بڑا یوٹرن آگیا ہے مگر یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اپوزیشن اتحادبھی پہلے اسی طرح ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتی آئی ہے، چور اور ڈاکو کے القابات سے نوازے جاتے رہے ہیں،
الزامات سمیت جیل تک میں ایک دوسرے کو ڈالا گیا ہے اور آج سب ایک پیج پر ہیں اب یہ نہ کہاجائے کہ اصولی سیاست صرف ہم کر رہے ہیں بلکہ یہ اقتدار کی رسہ کشی اور مفادات کی جنگ ہے جس میں سب کچھ جائز ہے۔ اس سے قبل ہم نے انہی صفحات میں یہ خبر دی تھی کہ اتحادی دونوں اطراف میں کھیل رہے ہیں اور سب سے بڑے بینفیشری بننے جارہے ہیں کیونکہ ق لیگ اور ایم کیوایم کے جومطالبات تھے ،اب انہیں پورا کرنے کا وقت آچکا ہے تاکہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بے اثر ہوجائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کیا حکمت عملی اپنائے گی اور اپنا نمبر گیم پورا کرنے کے لیے کون سے پتے کھیلے گی مگر لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی وفاداریاں دلچسپ موڑ لے رہی ہیں ،مزید اہم فیصلے بھی جلد متوقع ہیں جنہیں سرپرائز بھی کہا جاسکتا ہے۔