27مارچ اسلام آباد جلسے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایک خط دکھایا تھا اور کہاتھا کہ ہمیں بیرونی ممالک سے دھمکی مل رہی ہے بڑی سازش کی جارہی ہے ہماری حکومت کو تبدیل کرنے کے لیے پیسے دیئے جارہے ہیں جس کے بعد ایک بڑی بحث چل رہی ہے کہ کون سے ممالک سازش کررہے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں اور کیوںکر موجودہ حکومت کو دھمکی دی گئی ہے۔ بہرحال سوالات بہت ہیں مگر اس وقت تک ان پر مفصل بحث نہیں کی جاسکتی جب تک اس خط کے مندرجات کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں اور کون سے ممالک اس میں شامل ہیں ان کے نام سامنے نہیں آتے ۔جبکہ اپوزیشن نے خط کو مکمل رد کرتے ہوئے اسے حکومت کا حربہ قرار دیا ہے اور خط کو پارلیمنٹ میں اِن کیمرہ سیشن میں بحث کے لیے پیش کرنے کی بات کی گئی ہے مگر اس وقت ملک میں سیاسی ہلچل جاری ہے ۔
البتہ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے جب تک اس حوالے سے حکومت کھل کر بات نہیں کرتی کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا بیرونی سازشوں کا تذکرہ عرصہ دراز سے چلتا آیا ہے یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ اورمغرب ہم پر کتنے مہربان رہ چکے ہیں اور کس نوعیت کے تعلقات انہوں نے رکھے ہیں جس کی بڑی تاریخ ہے۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں سینیئر صحافیوں سے ملاقات کی ،ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ خط ہمارے اپنے سفیر کی جانب سے لکھا گیا ہے، ملک کا نام نہیں بتا سکتے ، وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں کو خط نہیں دکھایا بلکہ مندرجات سے آگاہ کیا۔اطلاعات کے مطابق ملاقات میں اسد عمر نے دھمکی آمیز خط سے متعلق بریفنگ دی اورصرف مندرجات شیئر کیے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ خط عسکری قیادت سے شیئر کیا جا چکا ہے، خط میں جو زبان استعمال ہوئی وہ بتا بھی نہیں سکتے۔وزیراعظم کا کہنا تھاکہ خط پر پارلیمنٹ کو ان کیمرا بریفنگ دیں گے جبکہ یہ خط ہمارے اپنے سفیر کی جانب سے لکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایاکہ خط سے متعلق ملک کا نام نہیں بتا سکتے، خط پر نیشنل سکیورٹی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ خط میں دھمکی دی گئی ہے اور یہ ہماری سالمیت کے خلاف ہے۔وزیراعظم نے صحافیوں سے ملاقات میں خط کے جس حصے کو دھمکی آمیز قرار دیکر تشویش کا اظہار کیا وہ تحریک عدم اعتماد سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو سارا کچھ معاف ہوجائے گا، اگر عمران خان رہتے ہیں تو ہم خوش نہیں ہوں گے اور پاکستان کیلئے چیزیں مشکل ہوجائیں گی۔ واضح رہے کہ صحافیوں سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے ،جس ملک کے پاکستانی سفیر نے خط بھیجا، اس کا نام ظاہر نہیں کیا لیکن ایک ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفارت کار نے حکومت پاکستان کو واشنگٹن کی بے چینی سے آگاہ کیا تھا تاہم اس کمیونیکیشن میں کسی دھمکی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔خیال رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے خط لہرایا تھا اور کہا تھاکہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، میرے پاس خط ہے اور وہ ثبوت ہیں۔وزیراعظم کے دعوے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے خط سامنے لانے اور ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔
اب اپوزیشن کے نمبرززیادہ ہوچکے ہیں حکومتی اتحادی سمیت پی ٹی آئی کے ارکان بھی شامل ہورہے ہیں گزشتہ روز سندھ ہاؤس اسلام آباد میں بھی بڑی بیٹھک لگی ہوئی تھی جس سے واضح طور پر اپوزیشن کی اکثریت سامنے آرہی ہے اور کامیابی بھی یقینی ہے۔ دوسری جانب عدم اعتماد کے روز حکومت کی جانب سے ایک لاکھ لوگ اسلام آباد آنے کی بات کی جارہی ہے اگر اس طرح کی صورتحال پیدا ہوگی تو ایک بار پھر جنگی ماحول پیدا ہوگا جس کے بڑے نقصانات سامنے آئینگے اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیاجائے ۔اور جہاں تک خط کا معاملہ ہے تودیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں کب خط کو پیش کیاجائے گا تب ہی اصل حقائق اور معاملات سامنے آئینگے۔