کراچی: وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ انتہاپسندوں سے مذاکرات کرکے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ راہداری کے حوالے سے بے شمار خدشات ہیں جس میں بلوچ تشخص کا خیال رکھا جائے۔ اگر اب غیرجمہوری قوتوں نے دھاوا بولا تو ہم ان کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میرغوث بخش بزنجو کی یادگاری کمیٹی کے تحت آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ان کی 26 ویں برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب اور بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیراعلیٰ بلوچستان تھے جبکہ صدارت نیشنل پارٹی کے صدر میرحاصل خان بزنجو نے کی۔ اس موقع پر سابق سینیٹر طاہر بزنجو، مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر اور سینئر وزیر سردار ثناء اللہ زہری، پائلر کے کرامت علی، ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی اور آرٹس کونسل کے سیکرٹری جنرل احمد شاہ بھی موجود تھے۔ عبدالمالک بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مخصوص حالات ہیں، ان میں میر غوث بخش بزنجو نے بہت جدوجہد کی اور اب ہم ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام شخصیات ہمارے لیے قابل احترام ہیں جنہوں نے سیاسی اور شعوری جدوجہد کی۔ بلوچ ہمیشہ نعروں کی زد میں رہے ہیں اور ان نعروں نے ہمیں ہمیشہ متاثر کیا ہے۔ اگر اس کو درست نہ کیا گیا تو ہم اپنے بزرگوں کو بھول جائیں گے اور جنہوں نے نعرے بازی کی وہ آگے آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایک آمر نے بلوچستان کو آگ لگادی ہے لیکن اگر میرغوث بخش بزنجو ہوتے تو شاید ایسے حالات پیدا نہ ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اب بس کر دیں، بلوچستان میں بہت خون بہہ گیا ہے، ہمارے نوجوان مارے گئے ہیں، اسکول تباہ ہوگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہمیں سنجیدگی سے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔سندھ ، پنجاب کراچی میں ہمارے لوگ بکھرے ہوئے ہیں ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہداری کے حوالے سے بے شمار تحفظات ہیں، بلوچستان میں جو سرمایہ کاری آئے گی، اُس میں بلوچستان کو کیا ملے گا اور منصوبے میں بلوچ تشخص کا خیال رکھنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کر کے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نذر کی ہلاکت کا کوئی علم نہیں ہے ۔ مسخ شدہ لاشوں میں کمی آئی ہے اور لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی حل کر رہے ہیں ۔ اس موقع پر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ آج مذہب کے نام پر پوری سوسائٹی قبضے میں آگئی ہے ۔دہشت گردی ایک سوچ ہے اس کو سیاست کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن سے دہشت گر دی ختم نہیں ہو گی کیونکہ اس کے پیچھے ایک سوچ کار فرما ہے۔ اگر ہم سیاسی طور پر ایک بار پھر تعمیر کرنے کی کوشش کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ ہمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر میر غوث بخش بزنجو کے نقش قدم پر چلنا ہو گا ۔ سردار ثناء اﷲ زہری نے کہا کہ آج ملک میں جو سیاست ہو رہی ہے وہ میر غوث بخش بزنجو کی سیاست ہو رہی ہے وہ مسلح جدوجہد کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ مسلح جدوجہد سے بلوچوں کو نقصان ہو گا ۔ نام نہاد مسلح جدوجہد کی وجہ سے ہم سو برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ نہتے پنجابیو ں کو مارتے ہیں ، بھائی بھائی کو مارتے ہیں جس کو ختم کرنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجابی سکوت ڈھاکہ کے بعد ہو شیار ہو گئے ہیں وہ اب پاکستان کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں ۔ کرامت علی نے کہا کہ میر غوث بخش بزنجو نے اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے سے انکار نہیں کیا ان کی سوچ اور ویژن کو آگے بڑھانا چاہیے ۔ اس موقع پر سیکرٹری آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ، فہمیدہ ریاض و دیگر نے بھی اظہار خیال کیا جبکہ وزیر اعلی ٰ بلوچستان نے آرٹس کونسل آف پاکستان کو 20لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا۔