اسپین کے وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے کہا ہے کہ اسپین نے 25 روسی سفارت کاروں اور سفارت خانے کے عملے کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یوکرین میں روسی افواج کی جانب سے مبینہ جنگی جرائم کے جواب میں اسپین یورپی یونین کے ان دیگر ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرچکے ہیں۔
انہوں نے کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کے بعد کہا کہ ہم نے اسپین میں روسی سفارت خانے سے روسی سفارت کاروں اور عملے کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمارے ملک کے مفادات اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔
یوکرین کے شہر بوچا میں اجتماعی قبروں اور شہریوں کے قتل عام کی دریافت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ’یہ بے دخلی گزشتہ دنوں میں یوکرین میں کی گئی خوفناک کارروائیوں کا بھی ردعمل ہے جو کہ خاص طور پر بوچا اور آج ماریوپول سے رپورٹ ہوئیں‘۔
وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے کہا کہ روسی فوج کے انخلا کے بعد بوچا قصبے میں شہریوں کے قتل عام کی جو ناقابل برداشت تصاویر ہم نے دیکھی ہیں اس پر ہمیں شدید غم و غصہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ جرائم ناقابل سزا نہیں رہ سکتے۔
اٹلی، سویڈن اور ڈنمارک پہلے ہی منگل کے اوائل میں اسی طرح کی بےدخلی کا اعلان کر چکے ہیں۔
جوز مینوئل الباریس نے کہا کہ ان کی حکومت کو توقع ہے کہ روس جواب میں اتنی ہی تعداد میں ہسپانوی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اسپین روسی سفیر کو ملک بدر نہیں کرے گا کیونکہ میڈرڈ، ماسکو میں اپنا سفیر رکھنا چاہتا ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے روس کے ساتھ بات چیت کے لیے سفارتی راستے کھلے چھوڑنا چاہتا ہے۔
روسی انخلا کے بعد بوچا قصبے کی گلیوں میں پڑی لاشوں کی تصاویر (جن میں سے کچھ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے) سامنے آئیں جس کے بعد روس کی عالمی سطح پر مذمت کی جارہی ہے اور یورپی یونین اضافی پابندیوں پر غور کر رہی ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے قتل کے پیچھے روسی فوجیوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے تاہم کریملن نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ لاشوں کی تصاویر ’جعلی‘ ہیں۔
گزشتہ روز فرانس نے 35 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا اور جرمنی نے بھی اعلان کیا کہ اس نے روسی سفیروں کی ایک ’غیرمعمولی تعداد‘ کو بےدخل کردیا ہے۔