|

وقتِ اشاعت :   April 12 – 2022

قومی اسمبلی نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو نیا قائد ایوان منتخب کرلیا جس کے بعد شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم بن گئے ہیں۔ نئے قائد ایوان کے لیے متحدہ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف اور تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے امیدوار تھے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کیاگیا۔شہباز شریف کو ایوان میں 174 ووٹ ملے جس کے بعد وہ پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ۔

منتخب وزیراعظم شہبازشریف نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام ساتھیوں کی کاوشوں سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بچا لیا ہے،یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور باطل کو شکست اور حق کی فتح ہوئی، آج کا دن پوری قوم کے لیے عظیم دن ہے کہ ایوان نے سلیکٹڈ اور جھرلو کی پیداوار وزیراعظم کو گھر کا راستہ دکھادیا۔

عوام کے لیے خوشی کی بات کی اور کیا مثال ہوگی کہ آج ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 8 روپے اونچا گیا، 190 سے واپس 182 پر واپس آگیا ہے، کہا جاتا تھا کہ ڈالر ایک روپیہ اوپر جائے تو وزیراعظم کرپٹ ہوتا ہے، یہ 8 روپے نیچے گیا ہے تو اب کیا کہا جائیگا، یہ عوام اور ایوان کے بھرپور اعتماد کا اظہار ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں سپریم کورٹ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آئین شکنی کو کالعدم قرارد یتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا۔کئی دنوں سے جھوٹ بولا جارہا تھا اور ڈرامہ کیا جارہا تھا کہ کوئی خط آیا ہے، مجھے ابھی تک خط نہیں دکھایا گیا نہ میں نے خط دیکھا، اس حوالے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام اور ایوان کے ارکان جاننا چاہتے ہیں کہ اس خط کی حقیقت کیا ہے، عدم اعتماد کے حوالے سے ہم کئی دن پہلے فیصلہ کرچکے تھے،

اگر یہ جھوٹ ہے تو سب کے سامنے آنا چاہیے تاکہ یہ بحث ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے، میں بطور منتخب وزیراعظم کے کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں خط پیش کیا جائے جس میں مسلح افواج کے سربراہان بھی موجود ہوں، جس میں ڈی جی آئی ایس آئی، سیکرٹری خارجہ اور وہ سفیر بھی ہوں، میں بلا خوف تردید کہتا ہوں کہ اگر اس حوالے سے رتی برابر ثبوت مل جائے کہ ہم کسی بیرونی سازش کا شکار ہوئے یا ہمیں کسی بیرونی وسائل سے مدد ملی تو میں ایک سیکنڈ میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے کر گھر چلا جاؤں گا، میں پہلی فرصت میں اِن کیمرا سیشن کا انتظام کروا کر خط پر بریفنگ کرواتا ہوں۔یہ انتہائی ضروری بات نومنتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہہ دی ہے کہ وہ سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے مبینہ خط جس میں بیرونی سازش کا ذکر کیا گیا ہے اور اس میں رجیم تبدیلی کی بات کی گئی ہے اور باقاعدہ اپوزیشن جماعتوں پر رقم لینے اور امریکہ کا آلہ کار بننے کا الزام لگایاگیا ہے یہ انتہائی خطرناک اور حساس نوعیت کا معاملہ ہے کہ ملکی سالمیت کا سودا کیاگیا اور ہمارے یہاں حکومت کو براہ راست سپر پاور چلاتے ہیں جو اس مبینہ خط کے ذریعے بیانیہ بنایاگیا ہے جس سے عوام میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے اس کے حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے تاکہ عوام کسی دھوکے میں نہ رہیں اور مکمل حقائق سے آگاہ رہیں۔ امید ہے کہ میاں شہباز شریف اس مبینہ خط کے معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لینگے اور اس کومنطقی انجام تک پہنچائینگے ۔

گزشتہ چنددنوں سے یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سراپااحتجاج ہیں کہ امریکہ نے عمران خان کی حکومت کو ختم کردیا ہے اور اس وقت پی ٹی آئی کی جانب سے اس بیانیہ کو تقویت دی جارہی ہے کہ یہ امپورٹڈحکومت ہے جس کے خلاف عوام سڑکوں پر آئیں، عوام کے جذبات کے ساتھ اگر جھوٹ کی بنیاد پر کھیلا جارہا ہے تو ان تمام کرداروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے تاکہ دوبارہ اس طرح کوئی جماعت قومی سلامتی اور ملک کو خطرے میں نہ ڈال سکے ۔المیہ تو یہ ہے کہ سابق حکومت نے اپنے دور میں یہ شکوہ کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن سابق وزیراعظم کا فون نہیں اٹھاتے اور یہ تماشہ بھی سب نے دیکھا کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد عمران خان وطن واپس پہنچے تو وزراء مشیروں کی قطار ائیرپورٹ پر استقبال کے لیے کھڑی تھی اور اس دوران عمران خان نے کہاکہ مجھے لگتا ہے کہ میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔ کیا اس وقت تک امریکہ بہترین دوست تھا۔ دوسری جانب روس کے دورہ کاتذکرہ کیاجارہا ہے اور یہ بات کی جارہی ہے کہ ہمیں کہاگیا کہ یوکرین حملے کی مذمت کی جائے ،ہم نے ڈکٹیٹشن نہیں لی اور ایسا تاثر دیاگیا کہ ہم مغرب اور امریکہ کے سامنے سینہ سپرہورہے ہیں ،جھک نہیں رہے ہیں ۔

المیہ تو یہ ہے کہ کسی بھی طاقتور ملک کا کمزور ملک پر حملے کی ہر سطح پر مہذب ممالک میں مذمت کی جاتی ہے اور اگریوکرین پر حملے کی مذمت کی جاتی تو اس سے روس کے ساتھ تعلقات پر کونسا اثر پڑتا سب نے اس عمل کی مذمت کی اور کہاکہ معاملات کو بات چیت سے حل کیاجائے جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان بھی جنگ اور مذاکرات ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ایک پی ٹی آئی کی حکومت تھی جس نے زمینی حقائق کو بھانپ لیا تھا عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے واضح آثار دکھائی دے رہے تھے پھر غلط بیانی سے کام لینا شروع کیا حالانکہ یہی یوکرین ہے جس نے کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے مظالم اور قبضے کی مذمت کی، ایٹمی دھماکوں کے دوران بھی شدید احتجاج ریکارڈ کرایا یہ سب کچھ کبھی بھی شاہ محمود قریشی سمیت دیگر عمران خان کے چہیتے عوام کے سامنے نہیں لائینگے کیونکہ اس وقت جو نیت پی ٹی آئی کی نظر آرہی ہے وہ ملک میں ایک تصادم کی صورتحال چاہتی ہے محض اقتدار کے لیے عوام کو دست وگریباں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو قابل مذمت عمل ہے۔ بیشک پی ٹی آئی احتجاج کرے مگر اس بنیاد پر کرے جس کے پاؤں ہوں ،بے سروپا اور من گھڑت کہانیاں گھڑ کر عوام کو گمراہ کرنا ملک کے ساتھ کھیلواڑ اور عوام کے احساسات اور جذبات کے ساتھ کھیلنا ہے ۔

پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر میدان میں آئے اور بتائے کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے زائد عرصے کے دوران انہوں نے کیا کارنامہ سرانجام دئیے محض ایک مبینہ خط اور اوٹ پٹانگ بیانیہ کے ذریعے مستقبل کی سیاست کو نہیں بچایا جاسکتا ۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بنیادی ارکان جسٹس وجیہہ الدین، حامدخان کیوں پی ٹی آئی کو چھوڑ کر گئے موجودہ منحرف اراکین کا اس میں ذکر نہیں کیاجارہا ہے بلکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کی تبدیلی کے سلوگن کے ساتھ خلوص نیت سے کام کیا مگر بعد میں کس طرح سے انہیں سائیڈ لائن کیا گیا اور کن لوگوں کو اہم عہدوں کے ساتھ نوازا گیا یہ تاریخ بھی سامنے ہے اور آج اگر پارٹی کو جو لوگ چھوڑ کر گئے تھے انہیں کون لیکر آیا تھا یہ سب کچھ بتایا جائے مگر نہیں کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ البتہ امید یہی ہے کہ نئی حکومت اپنے اوپر لگے داغ کو حقائق کی بنیاد پردھولے گی اور حقائق کو سامنے لائے گی جبکہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے ساتھ تمام ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرے گی تاکہ ملک بحرانات سے نکل سکے اور عوام جو اس وقت شدید پریشانی سے دوچار ہیں ان کے مسائل حل ہوسکیں۔