|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2022

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آبادجلسے کے دوران اپنے خلاف بیرونی سازش کے متعلق ایک خط لہراتے ہوئے کہا کہ ایک ملک نہیں چاہتا کہ میں حکومت میں رہوں اس لیے مجھے ہٹانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے ملکر سازش کی جارہی ہے اور ہمارے سفیر کو یہ بات بتائی گئی۔ خط کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بہت خطرناک باتیں کہی گئی ہیں جسے میں یہاں نہیں دہراسکتا مگر عوام کو بتانا چاہتاہوں کہ مجھے ہٹانے کے لیے کس طرح کی سازشیں باہر سے رچائی جارہی ہیں اور اپوزیشن آلہ کار بن کر اور پیسے لیکر یہ کام کررہی ہے۔

اس مبینہ خط کے متعلق اب تک ایسی بات سامنے نہیں آئی جو پی ٹی آئی کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان کررہے ہیں عمران خان نے ایک ملک سے متعلق سازش کا کہا پھر امریکہ کا نام باقاعدہ لینے لگا اور کہا امریکہ یہ سازش کررہا ہے کیونکہ میں نے روس کا دورہ کیا تھا جو ان کو پسند نہیں آیا۔انہوں نے مثال بھارت کی دی کہ کبھی بھی اسے ڈکٹیٹ نہیں کیاجاتا کہ فلاں ملک کے خلاف بیان جاری کرے مگر ہم پر زور دیاجاتا ہے جیسے ہم ان کے غلام ہیں۔اب روس کے دورے سے بات نکل کر گزشتہ روز پشاور جلسے میں امریکہ کو فوجی اڈے نہ دینے کی بات کا ذکر کیا اور کہایہی وہ وجوہات ہیں کہ میری حکومت کے خلاف سازش کی گئی اور حکومت کے خاتمے کے لیے تمام وسائل لگائے گئے یہاں تک کہ عدلیہ کے متعلق بھی بات کی کہ میں نے ایسا کونسا کام کیا جو رات کو عدالتیں لگنے لگیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی عدالتیں ہیں جب یوسف رضا گیلانی، میاں محمد نوازشریف کو نااہل قرار دیکر رخصت کیا تو پی ٹی آئی جشن مناتی رہی اور یہی بیانیہ دہراتی رہی کہ ہماری عدلیہ اور پاک فوج ملک کے وسیع ترمفاد میں کام کررہے ہیں اور ان کے خلاف زہر افشانی کی جارہی ہے

جسے پی ٹی آئی کسی صورت قبول نہیں کرے گی اور جب پی ٹی آئی حکومت میں آئی تو ساڑھے تین سال تک یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہماری پہلی حکومت ہے جس کے فوج کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور ہم ہر معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ لیکن جب سے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کوعدم اعتماد کے ذریعے اپوزیشن نے رخصت کردیا ہے تو سازشوں کا ذکر کیاجارہا ہے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے،ایک ایسا بغیر کسی ثبوت کے بیانیہ سامنے لایا گیاہے کہ ساری دنیا اس کے خلاف ہے اور پاکستان کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ بہرحال موجودہ سیاسی صورتحال اور اداروں پر تنقید مبینہ خط سے متعلق پاک فوج کا واضح مؤقف سامنے آیا ہے۔ گزشتہ روزڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں کسی سازش کا ذکر نہیں، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرحدی صورتحال مستحکم ہے۔ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی جبکہ پاکستان کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دینگے۔ تعمیری تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے امریکی مراسلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم آفس کی جانب سے عسکری قیادت سے رابطہ کیا گیا تھا اور پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا مؤقف قومی سلامتی میں پیش کیا تھا۔ قومی سلامتی کا اعلامیہ دھیان سے دیکھیں کیا اس میں سازش کا کوئی لفظ ہے؟ میرے خیال سے اس میں سازش کا کوئی لفظ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے، عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آرمی چیف واضح کر چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

سیاست میں فوج کی مداخلت کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اب اس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے ایٹمی پروگرام کو سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایٹمی اثاثے کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں۔انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں سازش کا ذکر نہیں ہے اور آرمی چیف نہ ایکسٹینشن لینا چاہتے ہیں اور نہ ہی لیں گے۔ آرمی چیف رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے اور پاکستان میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے دورہ روس سے پہلے مشاورت کی تھی اور اگر پاکستان سے اڈے مانگے جاتے تو فوج کا جواب بھی ایبسلوٹلی ناٹ ہوتا۔

سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی ان کے محرکات تک پہنچ چکے ہیں جس میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ترجمان پاک فوج نے کہا کہ احتجاجی مراسلے صرف سازش پر جاری نہیں کیے جاتے اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں اور یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔اب عوام پاک فوج کے مؤقف پر غور سے توجہ دیں کہ غلط بیانی کرکے کس طرح سے عوام کو گمراہ کرکے مبینہ خط، دورہ روس کا ذکر کیاجارہا ہے کہ بڑی سازشیں کی گئیں اور عمران خان کو نکالاگیا۔لہٰذا اس وقت عوام کو حالات کا ادراک کرنا چاہئے ملک پہلے سے بہت سے مسائل میں گِرا ہوا ہے بجائے کسی سازش کے پیچھے لگنے کے،حقائق سے آگاہ ہوجائیں اور ملکی تعمیروترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں ناکہ کسی ایک ایسا اندھا بیانیہ جس کا سر اور پیر ہی نہ ہو اس کے پیچھے لگ جائیں کیونکہ پی ٹی آئی کی اس وقت پوری کوشش ہے کہ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایاجائے اور اپنی مقبولیت کو بڑھائی جائے

۔ساڑھے تین سال تک حکومت کرنے والی جماعت نے پہلے بھی اسی طرح وعدے کرکے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا تھا لہٰذا باشعورعوام ذمہ دار شہری کا فرض ادا کرتے ہوئے کسی سازش کا حصہ نہ بنیں جوملکی مفاد کے برعکس ہو۔