|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2022

ملک میں اس وقت سیاسی پارہ ہائی ہے۔ پی ٹی آئی مسلسل جلسے کررہی ہے جس کی بنیاد سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے جڑی ہے کہ مبینہ طور پر اس عمل کے پیچھے براہ راست امریکہ ہے جو چاہتا تھا کہ عمران خان کو فارغ کیا جائے اور اس سیاسی عمل میں باقاعدہ رقم دینے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں اور وہ مبینہ خط جس کا چرچا اب بھی عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے قائدین کررہے ہیں۔

خط کے متعلق جو سازش جیسے سنگین الزمات لگائے گئے اس پر ایک تفصیلی بریفنگ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی آچکا ہے مگر اس کے باوجود پی ٹی آئی کے چیئرمین اور ذمہ داران بضد ہیں کہ سازش ہوئی ہے مبینہ خط کے متعلق غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ ایک ایسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے کہ آئینی اداروں کے سربراہان کے خلاف سوشل میڈیا سمیت جلسوں میں منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے جو ملکی سلامتی اور استحکام کے لئے نیک شگون نہیں۔ پی ٹی آئی کے قائدین کے قول و فعل میں بھی تضادات دکھائی دیتے ہیں سازش اور مداخلت کی اپنی طرف سے تشریح بھی کررہے ہیں ساتھ ہی مبینہ غیر ملکی سازش کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ناوشگوار تعلقات کا بھی ذکر کررہے ہیں جو فواد چوہدری کے ایک انٹرویو میں واضح دکھائی دیتا ہے ۔

اپنے دور حکومت میں پی ٹی آئی بارہا یہ بات کرتی آئی ہے کہ اپوزیشن اداروں کو سیاست میں گھسیٹ کر انارکی اور انتشار پھیلانا چاہتی ہے مگرخود ہی اس کا ذکر بارہا کرتے رہے ہیں کہ ہم ایک پیج پر ہیں جس کی مثال پہلے کسی دور حکومت میں نہیں ملتی تھی مگر اب کھل کر اپنے مضادات بیانات سے آشکار ہورہے ہیں اور یہ پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسی ہے کہ اسی متضاد موقف پر ڈٹ کر گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کے اندر ہمدردی لینی ہے تاکہ انتخابات میں انہیں کامیابی مل سکے مگر جیسے جیسے حقائق سامنے آتے رہینگے پی ٹی آئی کا موجودہ بیانیہ عوام میں غیر مقبول ہوتا جائے گا۔

گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی۔اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے مِنٹس بھی پیش کیے گئے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں امریکا میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی سفیر اسد مجید اور اعلٰی سول و ملٹری حکام شریک ہوئے جن میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر احسن اقبال، وزیرمملکت برائے امورخارجہ حنا ربانی کھر شامل ہیں۔

اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں نے مراسلے کی تحقیقات کیں، دوران تحقیقات غیرملکی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ سکیورٹی اداروں کی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔ اجلاس اعلامیہ کے خدوخال واضح ہیں مگر پی ٹی آئی اپنی سیاسی ڈگر پر ہی چلتی رہے گی مگر اس کا نتیجہ بند گلی کی طرف انہیں دھکیل دے گا ۔حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے سچ کا سامنا کیا جائے بجائے یہ کہ انارکی جیسا ماحول پیدا کیا جائے کہ ہم نہیںتو کوئی اور بھی نہیں۔ سیاسی عدم استحکام ملکی مفادات کو بہت بڑا نقصان دے گا لہذا سنجیدہ سیاست کی جائے، گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے وقتی ہمدری حاصل کرنے کیلیے ملکی سلامتی کو دائو پر نہ لگائیں۔