پاکستان میں بلاشبہ گدا گری قدیم پیشہ ہے، لیکن گداگری سے مراد حکومتی امداد لینا نہیں بلکہ غربت، مہنگائی،ناخواندگی اور بیروزگاری کے باعث بھوک وافلاس سے تنگ آکر خواتین و مرد بھیک مانگنے کے پیشے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ایسے پیشہ ور بھکاریوں کو بھیک مانگنے کا سلیقہ اور فن خوب آتا ہے، معصوم چہرہ بناتے ہوئے دلوں میں چوٹ لگانے والے نفسیاتی حربے استعمال کرنا ان کا فن وہنر ہے خاص طور پر مخصوص مقامات کے اعتبار سے ان کی غمگین صدائیں دل کو موم کردیتی ہیں انھیں اگر کاروباری علاقے میں بھیک مانگنا ہوتا ہے تو وہاں یہ اپنے معصوم بچیوں کو پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کرتے ہیں، سر کے بال بکھیردئیے جاتے ہیں اور پاؤں سے جوتے غائب کر دئیے جاتے ہیں یعنی پاؤں ننگے ظاہر کرتے ہیں اور ان کی زبان سے ترقی کرنے کی دعائیں ہوتی ہیں۔
عدالتوں میں غول کے غول نظر آنے والی یہ بھکارنیں لوگوں کو عدالتی مسائل سے چھٹکارہ پانے اور عزیزوں کو ضمانت پر رہائی کی دعائیں دیتی ہیں، سرکاری اسپتالوں کے باہر خواتین گداگر ہاتھوں میں دواؤں کے نسخے اٹھائے والدین کو ان کے بیمار بچوں کا واسطہ دینے اور شفایاب ہونے کی دعا دینے کے بعد دوائیں خریدنے کے لیے پیسے مانگتی ہیں ،شہری ان کی درد مند صداؤں سے متاثر ہوکر انھیں دوائیں خرید کر دے دیتے ہیں جنھیں بعد میں گداگر خواتین میڈیکل اسٹور پر واپس کرنے کے بعد پیسے وصول کرلیتی ہیں۔ ان گداگروں کی اکثریت خواتین و بچوں بچیوں اور بوڑھوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پیشہ ور بھکاری باگڑی بھیل خانہ بدوش شہروں کے مضافاتی علاقوں میں جھونپڑیوں میں قبیلوں کی صورت میں رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دفاتر، مساجد، مزارات، گرجا گھروں، اور مندروں کے گرد بھی نظر آتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بھکاری خواتین مختلف اشیا فروخت کرنے کی آڑ میں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں یہ پیشہ ور گدا گر خواتین ہیئر پن، ٹشوپیپرز، پین، اسٹیشنری، قرآنی آیات، ڈرائنگ بک، کھلونے، گاڑیاں، ونڈ اسکرین اور بالوں کے کلپ وغیرہ فروخت کرتے ہوئے بھیک وصول کرتی ہیں۔ بیشتر خانہ بدوش خواتین گداگری سے رقم کماکر سونے کے زیورات بنواتی ہیں، بعض گداگر خواتین نشہ کے بھی عادی ہوتیں ہیں۔
شہر میں گداگر خواتین بھیک مانگنے کے علاوہ دیگر گھناؤنے کام میں ملوث ہوکر معاشرے میں بے راہ روی پھیلانے کا بھی موجب بنتی ہیں۔گزشتہ دو عشروں سے گداگر خواتین کی ٹولیاں شہروں میں دن رات بھیک مانگتی نظرآتی ہیں،بلوچستان سمیت دیگر علاقوں کا سماجی چہرہ اور روایات کو گداگری کے قبیح مسئلہ نے مسخ کردیا ہے۔ گداگر کئی روپ میں ملتے ہیں۔ بھیک مانگنے والی گداگر خواتین اسٹریٹ کرائم اور گھروں میں چوریاں کرنے میں بھی ملوث پائی گئی ہیں، بیشتر وارداتیں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے لیے بطور مخبری کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ جب کہ بعض گداگر خواتین مسافر بسوں اور رش کے مقامات پر جیب کاٹنے میں خصوصی مہارت رکھتی ہیں جیب تراش خواتین ٹولیوں کی صورت میں مختلف بسوں اورکوچز میں سوار ہوتی ہیں، تیز دھار بلیڈ کے استعمال سے مردوں کی جیب اور خواتین کے پرس کاٹ لیتی ہیں اور گھریلو ملازماؤں کی روپ میں گھر کے بچوں کو اغوا کے بعد والدین سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایسی بھی گدا گر خواتین ہیں جو منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ بھی کرتی ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بے گھر بچوں کو اغوا کرکے انہیں معذور کرکے بھیک منگوانے کے رجحان میں اضافہ ہوگیا ہے، معصوم بچے پہلے ہی بے آسرا ہوتے ہیں جب وہ معذور ہوجاتے ہیں تو وہ بھکاریوں کے چنگل سے نکل کر کہیں نہیں جاسکتے اور پھر بھکاری خواتین ان بچوں کو گاڑیوں میں بٹھاکر شہر بھر میں بھیک مانگنے کا کام کرتی ہیں اس مقصد کے لیے بھکاری خواتین شہر میں بے گھر بچوں کو مزارات اور دیگر مقامات پر مشروب میں نشہ آور اور گولیاں پیس کر پلانے کی کوشش کرتی ہیں جس کے پینے سے بچے بیہوش ہو جاتے ہیں اور انھیں اغوا کرلیا جاتا ہے پھر ان بچوں کو اپنے ڈیرے پر لے جاکر ہڈیاں توڑ کر انھیں معذور کردیاجاتا ہے تاکہ معذوربچوں کو دکھا کر بھیک زیادہ حاصل کی جاسکے۔
موسم کی تبدیلی، مذہبی تہوار اور قدرتی آفات کے تناظر میں بھکاریوں کی تعداد بڑھتی گھٹتی رہتی ہے مذہبی تہواروں،فیسٹیولز، سرد موسم، رمضان المبارک، عیدالفطر اور عیدالاضحی پر خانہ بدوش گداگر شہروں کا رخ کرتے ہیں۔حکومت اور غیر سرکاری تنظیمیں بھکاری خواتین کی بحالی کے لیے کوئی موثر اقدامات کرنے سے قاصر ہیں ، شہر میں موجود بھکاریوں سے متعلق اب تک کوئی تحقیق نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی مربوط سروے کیا گیا ہے،اور نہ ہی ان کا کوئی مربوط ڈیٹا سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر موجود ہے۔ سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیشہ ور بھکاریوں کیلئے بھکاری ہومز اور انسداد گداگری کے مراکز قائم کیے گئے تھے جہاں انھیں مفت کھانا اور لباس فراہم کیا جاتا تھا لیکن اس منصوبے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ جو بھکاری روزانہ 1500 روپے بذریعہ بھیک کماتا تھا سخت محنت کرکے کمانے کی زحمت آخر کیوں کر کریگا؟ رمضان المبارک میں اندرون سندھ اور سرائیکی بیلٹ سے سینکڑوں خاندان بھیک مانگنے کیلیے بلوچستان کارخ کرتے ہیں۔
پاکستان کے تمام شہروں میں بھکاری مافیا کے ٹولے ہرجگہ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ جِن میں بڑی تعداد خواتین اور کم عمر بچیوں کی ہوتی ہے۔ بلوچستان بھر کے مختلف شہروں کی اہم شاہراہوں پر یہ تک دیکھا گیا کہ خواتین نومولود بچیوں کو اْٹھائے بھیک مانگ رہی ہوتی ہیں تاکہ اْن پر ترس کھا کر عوام اْن کو بھیک دے دیں۔ ملک کے مختلف سرکاری اور غیر کاری اِداروں کا کہنا ہے کہ گداگری ایک منظم کاروبار بن گیا ہے جسے مافیاز کنٹرول کرتی ہے اور یہ بھکاری صرف بھیک کی مدد سے اپنا پیٹ نہیں پالتے بلکہ اِن کو کسی کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں دن بدن اِضافہ ہو رہا ہے۔ گداگری کا بڑھتا ہوا رجحان صرف مجبوری اور معذوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ اِنسانی فطرت بن چکی ہے۔اگر اِس بْرائی کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہے تو صوبائی حکومت ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے میونسپلز کمیٹیز اور پولیس کے ذریعے تمام پیشہ ور بھکاریوں کو اْور اْن کے ٹھیکیداروں کو پکڑے، اور حکومتی سطح پر غربت اور پسماندگی سے ستائے عوام کے مسائل حل کرے ۔
اسلام بھیک کی مذمّت کرتا ہے اور اسے ناجائز قرار دیتا ہے ۔جس قوم میں بھیک مانگنے والوں کی کثرت ہو جائے اس قوم کی دولت میں، محنت جفاکشی میں، غیرت و حمیت میں،ہمت ولولہ میں عزم اور جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور معاشرے میں سینکڑوں برائیاں جنم لیتی ہیں۔ غیر مستحق اور پیشہ ور گداگروں کا وجود معاشرے کے حق میں زہر قاتل کا وجود رکھتا ہے ایسے افراد مستحق لوگوں ناداروں مفلسوں معذوروں کا حق مارتے ہیں۔ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک مرتبہ خاتم النبیین حضرت محمد ؐ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیاکہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ ّحکومت وقت کا اولین فرض ہے کہ وہ گداگری کے مکمل خاتمے کیلئے قانون سازی کرے،احساس پروگرام یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام، محکمہ زکواۃ، بیت المال سمیت ایک مخصوص ادارہ بحالی گداگران بنایا جائے جو پورے ملک میں ایسے افراد کی شفاف اور میرٹ پر رجسٹریشن کرے اور انہیں مالی معاونت سمیت مختلف ہنر اور مہارت سکھائے جائیں تاکہ وہ خود کاروبار کرکے باعزت زندگی گزار سکیں۔تاکہ عوام اور کاروباری طبقے ان گداگروں کے عذاب سے بچ سکیں اور ساتھ ہی ان لوگوں میں محنت ومشقت کا جذبہ پروان چڑھ سکے۔